مہاراشٹر الیکشن: بی جے پی پھر سے ’ہندو کارڈ‘ کے سہارے، شیو سینا نے بدلا اپنا چہرہ
کہا جاتا ہے کہ لوک سبھا الیکشن کی طرح ہی بی جے پی اور شیوسینا کا مشترکہ انتخابی منشور جاری ہونے والا تھا۔ لیکن کئی وعدوں پر ان دونوں پارٹیوں کو اعتراض تھا جس سے دونوں نے اپنا اپنا الگ منشور جاری کیا۔
مہاراشٹر میں بی جے پی اور شیوسینا دونوں ہی پارٹیاں اتحاد بنا کر الیکشن ضرور لڑ رہی ہوں، لیکن ان کے انتخابی منشور میں جو وعدے ہیں وہ بہت مختلف ہیں۔ بی جے پی جہاں ہندو کارڈ کھیل رہی ہے، وہیں شیو سینا نے اس بار حکومت و انتظامیہ کی باتیں زیادہ کی ہیں۔ ویسے مانا یہی جا رہا ہے کہ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے ان دونوں نے الگ الگ انتخابی منشور جاری کیے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ لوک سبھا الیکشن کی طرح ہی بی جے پی اور شیوسینا کا مشترکہ انتخابی منشور جاری ہونے والا تھا۔ لیکن کئی وعدوں پر ان دونوں پارٹیوں کو اعتراض تھا جس سے دونوں نے اپنے اپنے علیحدہ انتخابی منشور جاری کیے۔ اس سے یہ بھی صاف ہے کہ اتحاد تو دونوں کے درمیان ہو گیا ہے لیکن نااتفاقی اب بھی برقرار ہے۔
بی جے پی کے ’سنکلپ پتر‘ میں کئی ایسی باتیں ہیں جن کا ریاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مثلاً دفعہ 370 کی بات۔ یہ کشمیر میں نافذ تھا اور وہیں سے ہٹایا گیا۔ پھر بھی اسمبلی انتخاب کے سنکلپ پتر میں اسے اہمیت دی گئی۔ اس کا پورا سہرا نریندر مودی اور امت شاہ کو دیا گیا ہے۔ ارادہ صاف ہے۔ اس کے سہارے بی جے پی یہاں ووٹ بٹورنے میں مصروف ہے۔ اس نے دفعہ 370 کو ختم کرنے کی بات کہہ کر اسے نیشنلزم سے جوڑا ہے۔
یہی نہیں، نیشنلزم اور ہندوازم کی شکل میں اپنا کٹر چہرہ پیش کرتے ہوئے اس نے ساورکر کو بھارت رتن دینے کے لیے مرکز سے مطالبہ کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی نے مہاراشٹر اور دلتوں میں سماجی انقلاب لانے والے مہاتما پھولے اور ساوتری بائی پھولے کے بھی نام ساورکر کے ساتھ جوڑے ہیں۔ پارٹی دلتوں کے ساتھ لانا چاہ رہی ہے۔ پھولے کے تعاون کو فراموش نہیں کیا جا سکتا لیکن ساورکر کے ’راشٹر پریم‘ پر تنازعہ ہوتا رہا ہے۔
بی جے پی نے اپنے وعدوں میں ان پروجیکٹس کو بھی شامل کیا ہے جو ادھورے ہیں اور اس کے سہارے خاص طبقہ کے جذبات سے کھیلنے کا کام ہوتا ہے۔ ان میں سمندر میں چھترپتی شیواجی کا اسمارک اور اندو مل میں بابا امبیڈکر کا اسمارک ہے۔ ایک اسمارک بال ٹھاکرے کا بھی ہے۔ بھلے ہی ریاست کی بی جے پی حکومت روزگار دینے میں ناکام رہی ہے، پھر بھی پارٹی نے پانچ سال میں ایک کروڑ ملازمتیں دینے کے ساتھ ریاست کو خشک سالی سے پاک کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
اُدھر شیو سینا نے تھوڑی الگ لائن لی ہے۔ اس بار اس نے اپنے ’وچن نامہ‘ میں ہندو کارڈ کے ساتھ رام مندر کا ایشو بھی جوڑ دیا ہے، جب کہ انہی دو ایشوز کو لے کر شیو سینا کا بی جے پی کے ساتھ اتحاد ہوتا رہا ہے۔ کشمیر میں دفعہ 370 ختم کرنے کی شیو سینا نے حمایت کی ہے، لیکن اس نے اسے وچن نامہ میں جگہ نہیں دی ہے۔ یہاں تک کہ شیو سینا نے اپنی اس جڑ کو بھی کنارے کر دیا ہے جس کے سہارے بال ٹھاکرے نے شیو سینا کی تشکیل کی تھی، یعنی بھومی پتروں سے شیو سینا دور نظر آ رہی ہے۔
شیو سینا نے غریب کسانوں کا ہر سال 10 ہزار روپے اور قرض معافی کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس نے ایک روپیہ میں صحت خدمات اور 10 روپے میں پیٹ بھر کھانا دینا بھی اپنے منشور میں شامل کیا ہے۔ اس میں 10 روپے میں پیٹ بھر کھانا ’جھنکا بھاکر‘ کا نیا ایڈیشن بتایا جا رہا ہے۔ اس منصوبہ میں واضح کیا گیا ہے کہ جس مرکز پر 10 روپے میں پیٹ بھر کھانا دیا جائے گا، وہیں 100 روپے تک کا بھی کھانا فروخت کیا جائے گا۔
سال 1995 میں جب شیو سینا-بی جے پی کی حکومت تھی تو اس وقت ’جھنکا بھاکر‘ منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔ اس کے لیے ممبئی کے پرائم لوکیشن پر دکانیں دی گئی تھیں۔ لیکن یہ منصوبہ ناکام ہو گیا اور دکانوں کی بندربانٹ ہو گئی۔ اس کا فائدہ اس وقت کے کچھ وزرا اور سیاسی کارکنوں کو ملا تھا۔ اب دیکھیے، بی جے پی ریاست میں ’اٹل بھوجن یوجنا‘ بطور تجربہ چلا رہی ہے۔ اسے ’سنکلپ پتر‘ میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن شیو سینا کی 101 روپے میں کھانا دیے جانے سے متعلق منصوبہ کو شکست دینے کے لیے بی جے پی اس ’اٹل بھوجن یوجنا‘ کو ’تروپ کا پتہ‘ بنائے ہوئے ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار جگن دیسائی کہتے ہیں کہ بی جے پی نے سنکلپ پتر میں جو وعدے کیے ہیں، وہ عوام کو دھوکہ میں رکھنے والے ہیں۔ اس میں اس نے اپنا کٹرپنتھی چہرہ دکھایا ہے۔ اسی کے تحت ساورکر کو بھارت رتن دلانے کا وعدہ ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ ساورکر کبھی ویر نہیں تھے۔ انھوں نے انڈمان کی جیل سے رہا ہونے کے لیے چھ بار معافی مانگی تھی۔ اس کے بعد انھیں شرط کے ساتھ چھوڑا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ وہ رتناگری میں رہیں گے۔ یہ بڑا سوال ہے کہ برطانیہ انھیں ہر مہینے پیسے دیتے تھے۔ اس کے عوض میں وہ برطانوی حکومت کو خفیہ جانکاری دیتے تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 18 Oct 2019, 9:58 AM