بلقیس بانو کیس: ہر غیر ضروری ایشو کو اچھالنے والے ٹی وی چینلز کیوں ہیں خاموش؟

بے باک کلیکٹو نامی تنظیم نے گجرات حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس معاملے میں بلقیس بانو کے ساتھ کھڑے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرے۔

تصویر قومی آواز/ویپن
تصویر قومی آواز/ویپن
user

قومی آواز بیورو

جس وقت وزیر اعظم لال قلعہ کی فصیل سے خواتین کے احترام کے دعوے کر رہے تھے، خواتین کی طاقت کا نعرہ لگا رہے تھے، ان کی آبائی ریاست گجرات میں بی جے پی حکومت بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کے مجرموں کو رہا کرنے کی تیاری کر رہی تھی۔ گجرات کی بی جے پی حکومت نے 15 اگست کو 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور اس کے خاندان کے افراد کو قتل کرنے کے الزام میں قید 11 مجرمین کو جیل سے رہا کر دیا۔ حالانکہ، گجرات حکومت کا یہ اقدام مرکزی وزارت داخلہ کے سرکلر کی خلاف ورزی ہے جو 10 جون 2022 کو تمام ریاستوں کے لیے جاری کیا گیا تھا۔

لیکن اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس واقعہ پر زیادہ شور شرابا نہیں ہوا۔ ان 11 مجرمین کی رہائی کے خلاف کوئی اجتماعی یا مشترکہ احتجاج نہیں ہوا۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن (آئی ڈی ڈبلیو اے)، پروگریسو مہیلا سنگٹھن (پی ایم ایس) اور خواتین کی کچھ دوسری تنظیموں نے جمعرات کو دہلی کے جنتر منتر پر گجرات حکومت کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔ وہیں بے باک کلیکٹو نامی تنظیم نے گجرات حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس معاملے میں بلقیس بانو اور اس کے خاندان کے ساتھ کھڑے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرے اور 2002 گجرات فسادات کے متاثرین کو انصاف دے۔


حیرت کی بات یہ ہے کہ نام نہاد مین اسٹریم میڈیا جسے گودی میڈیا بھی کہا جاتا ہے، جو ہر چھوٹی چھوٹی بات پر ہنگامہ برپا کر دیتا ہے، بالکل خاموش ہے۔ ٹی وی چینلز کے اینکرز جو چلا چلا کر شور مچاتے تھے وہاں بھی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔

خواتین کی عزت اور ہر غیر ضروری مسئلے کو پروان چڑھانے میں ماہر ٹی وی اینکر، لگتا ہے کہ وہ اس خبر کو جانتے ہی نہیں ہیں۔ وہ چاہے ٹائمز ناؤ کی نویکا کمار ہوں، سی این این نیوز 18 کی ماریہ شکیل ہوں، آج تک کی انجنا اوم کشیپ یا شویتا سنگھ ہوں یا اے بی پی نیوز کی روبیکا لیاقت ہوں۔ سب خاموش ہیں۔ یہ خبر اور اس کے مضر اثرات ٹی وی چینلز سے تقریباً غائب ہیں۔ جبکہ نیوز چینلوں پر بہار اور راجستھان کی سیاست سے جڑی خبریں اچھالی جا رہی ہیں۔ یا روہنگیا مہاجرین، ساورکر اور ہندو فوبیا کو ایشو بنایا جا رہا ہے۔


یاد دلا دیں کہ دسمبر 2012 میں نربھیا کیس پر ان چینلوں نے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ ان چینلز نے جس طرح اس خبر کو کور کیا اس سے پورا ملک ہل گیا۔ ملک بھر میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ جس طرح سے نربھیا کیس کی رپورٹنگ کی گئی، اس کی وجہ سے جنسی زیادتی کے معاملات کو لے کر کافی سنجیدہ بحثیں بھی ہوئی۔ لیکن اس معاملے میں قومی روزنامے کچھ درست نظر آئے۔ تقریباً تمام اخبارات نے صفحہ اول پر بلقیس بانو کیس کی خبر شائع کیں۔ ٹائمز آف انڈیا نے اس معاملہ پر ایک اداریہ بھی لکھا، جس میں ان 11 ریپسٹوں کی رہائی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح گجرات حکومت ان 11 قاتلوں اور عصمت دری کرنے والوں کی رہائی کی اپیل کو مسترد کرنے کے لیے اپنی رہائی پالیسی کا استعمال کر سکتی تھی۔

ٹائمز آف انڈیا نے اپنے اداریے میں لکشمن نسکر بمقابلہ یونین آف انڈیا کے معاملے کا حوالہ دیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ رہائی کی پالیسی کو لاگو کرنے سے پہلے، حکومت کو یہ معلوم کرنا چاہیے کہ کیا اس جرم کا اثر صرف ایک شخص پر ہوا ہے یا سماج کا ایک بڑا طبقہ اس سے متاثر ہوا ہے۔ اداریہ میں کہا گیا ہے کہ لکشمن نسکر کیس اور مرکزی وزارت داخلہ کے رہنما خطوط کافی حد تک واضح تھے جس کی بنیاد پر ان 11 لوگوں کو رہا نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔


وہیں ہندو اخبار نے بھی اس معاملے پر ایک اداریہ لکھا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ "یہ مکمل طور پر ناقابل فہم اور منطق کے خلاف ہے کہ 3 خواتین کی عصمت دری کرنے والے، 3 اور 6 سال کے بچوں کو قتل کرنے والوں کو کسی بھی پالیسی کے تحت کیسے رہا کیا جا سکتا ہے۔"

انڈین ایکسپریس نے بھی اپنے اداریہ میں کہا گیا ہے کہ 2002 کے گجرات فسادات کے مرکز میں رہنے اس معاملے میں قصورواروں کو جو چھوٹ دی گئی ہے اس سے الٹا اثر پڑنے والا ہے۔ اداریہ میں مزید کہا گیا کہ "یہ 2002 کے ہولناک جرائم میں سزا کو یقینی بنانے کے لیے سخت لڑی جانے والی قانونی جنگ کے لیے ایک سنگین دھچکا ہے، جب کہ انتہائی مشکل اور طاقتور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،"


انسانی حقوق کے کارکنوں نے متفقہ طور پر 11 مجرموں کی رہائی کے اقدام پر تنقید کی ہے۔ انسانی حقوق کے وکیل شمشاد پٹھان نے کہا کہ یہ عصمت دری اور قتل کا گھناؤنا کیس ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ 2002 کے فسادات کے صرف مجرموں کو ہی کیوں رہا کیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ بہت سے ایسے قیدی ہیں جو اپنی سزا پوری کر چکے ہیں، لیکن انہیں رہا نہیں کیا۔ اس کے علاوہ آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس کے آل انڈیا ورکنگ ویمن فورم نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ یہ 11 مجرم کسی بھی حالت میں جلد رہائی کے حقدار نہیں ہیں۔ انہوں نے مرکزی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ان مجرموں کی رہائی واپس لینے کے لیے مداخلت کرے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔