بلقیس بانو معاملہ: مجرموں کی رِہائی سے متعلق گجرات حکومت کا فیصلہ پلٹتے ہوئے سپریم کورٹ نے کیا کہا؟

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ مجرموں کی رِہائی کا گجرات حکومت کا فیصلہ طاقت کا غلط استعمال تھا، سپریم کورٹ نے سبھی 11 قصورواروں کو اگلے دو ہفتے میں جیل اتھارٹی کے سامنے خود سپردگی کرنے کا حکم دیا ہے۔

بلقیس بانو، تصویر آئی اے این ایس
بلقیس بانو، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

عدالت عظمیٰ نے بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری معاملہ کی سبھی قصورواروں کو ایک بار پھر جیل میں ڈالنے کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔ گجرات حکومت نے بلقیس بانو کے جن 11 مجرموں کو 2022 میں رِہا کر دیا تھا، اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے آج پلٹنے کا اعلان کر دیا۔ سبھی قصورواروں کی معافی رد ہو گئی ہے اور ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں گجرات حکومت کو پھٹکار بھی لگائی ہے۔

سپریم کورٹ نے آج سنائے گئے اپنے فیصلے میں کہا کہ جہاں مجرموں کے خلاف مقدمہ چلا اور سزا سنائی گئی، وہی ریاست قصورواروں کی سزا معافی کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ یعنی قصوواروں کی سزا معافی کا فیصلہ گجرات حکومت نہیں کر سکتی، بلکہ مہاراشٹر حکومت اس معاملے پر فیصلہ کرے گی کیونکہ بلقیس بانو معاملے کی سماعت مہاراشٹر میں ہی ہوئی تھی۔ عدالت نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ گجرات حکومت کا فیصلہ طاقت کا غلط استعمال تھا۔ سپریم کورٹ نے سبھی 11 قصورواروں کو اگلے دو ہفتے میں جیل اتھارٹی کے سامنے خود سپردگی کا حکم بھی دیا ہے۔


واضح رہے کہ بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری معاملے کے 11 قصورواروں کی سزا گجرات حکومت نے معاف کر دی تھی۔ گجرات حکومت کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج پیش کای گیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے 8 جنوری کو فیصلہ سنا دیا۔ جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس اجول بھوئیاں کی بنچ نے معاملے کی سماعت کی اور 12 اکتوبر 2023 کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔

گجرات حکومت کی معافی پالیسی کے تحت سال 2022 میں بلقیس بانو سے اجتماعی عصمت دری اور اس کے کنبہ کے ساتھ اراکین کے قتل کے قصورواروں کی سزا معاف کر دی تھی اور انھیں جیل سے رِہا کر دیا تھا۔ حالانکہ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قصورواروں کو پھر سے جیل جانا ہوگا۔ ان قصورواروں کو سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے 2008 میں عمر قید کی سزا سنائی تھی، جس پر بامبے ہائی کورٹ نے بھی اپنی مہر لگا دی تھی۔ عمر قید کی سزا پائے قصورواروں کو 14 سال جیل میں ہی گزارنے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جرم کی فطرت، جیل میں سلوک اور دیگر چیزوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے سزا گھٹانے یا رِہائی پر غور کیا جا سکتا ہے۔ بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کے قصوروار جیل میں 15 سال گزار چکے ہیں، جس کے بعد قصورواروں نے سزا میں رعایت کی اپیل کی تھی۔ اس پر گجرات حکومت نے اپنی معافی پالیسی کے تحت ان 11 قصورواروں کو جیل سے رِہا کر دیا تھا۔


گجرات حکومت کے اس فیصلے کے خلاف 30 نومبر 2022 کو سپریم کورٹ میں دو عرضیاں داخل کی گئی تھیں۔ پہلی عرضی میں قصورواروں کی رِہائی کو چیلنج دیتے ہوئے انھیں واپس جیل بھیجنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ دوسری عرضی میں سپریم کورٹ کے مئی میں دیے گئے حکم پر از سر نو غور کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ قصورواروں کی رِہائی کا فیصلہ گجرات حکومت کرے گی۔

ان عرضیوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران مرکزی اور گجرات حکومت نے قصورواروں کی رِہائی کے فیصلے کا دفاع کیا تھا اور کہا تھا کہ قصورواروں نے نایاب ترین جرم نہیں کیا ہے اور انھیں اصلاح کا ایک موقع دیا جانا چاہیے۔ اس پر عدالت نے سوال کیا کہ رِہائی میں چھوٹ کا فائدہ صرف بلقیس بانو کے قصورواروں کو کیوں دیا گیا؟ باقی قیدیوں کو ایسی چھوٹ کیوں نہیں دی گئی؟ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے یہ بھی پوچھا کہ کیا قصورواروں کو معافی مانگنے کا بنیادی حق ہے؟ اس پر قصورواروں کے وکیل نے مانا کہ قصورواروں کو معافی مانگنے کا بنیادی حق نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔