بہار اسمبلی انتخاب: مہاگٹھ بندھن اور این ڈی اے میں نہیں گلی دال، تو کشواہا نے بی ایس پی-جے پی ایس کا تھاما دامن
اوپیندر کشواہا تین دنوں تک دہلی میں تھے اور پیر کے روز پٹنہ پہنچے۔ مہاگٹھ بندھن سے دوریاں بڑھنے کے بعد اور این ڈی اے میں جگہ نہ ملنے سے مایوس کشواہا اب تیسرے محاذ کے لیے امکانات تلاش کر رہے ہیں۔
بہار اسمبلی انتخابات کے پیش نظر سیاسی سرگرمیاں تیز ہونے کے ساتھ ساتھ مہاگٹھ بندھن اور این ڈی اے اپنے اپنے اتحاد کو مضبوط بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس درمیان کچھ ایسی پارٹیاں بھی ہیں جو ان دونوں اتحادوں سے الگ اپنی زمین تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسی پارٹیوں میں اوپیندر کشواہا کی سربراہی والی راشٹریہ لوک سمتا پارٹی (آر ایل ایس پی) بھی ہے۔ ویسے تو آر ایل ایس پی مہاگٹھ بندھن کے ساتھ تھی لیکن زیادہ سیٹوں کا مطالبہ کرتے ہوئے کشواہا بضد نظر آ رہے تھے جس کی وجہ سے وہ مہاگٹھ بندھن سے ناراض ہو گئے اور این ڈی اے کی طرف اپنا مستقبل دیکھنے لگے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی دال این ڈی اے میں بھی نہیں گلی۔ ہار پچھتا کر انھیں بی ایس پی (بہوجن سماج پارٹی) اور جے پی ایس (جن وادی سوشلسٹ پارٹی) کے ساتھ ایک نیا محاذ قائم کرنا پڑا۔
بی ایس پی اور جے پی ایس کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کے بعد اوپیندر کشواہا نے کہا کہ آر جے ڈی اور نتیش حکومت دونوں ایک ہی سکہ کے دو پہلو ہیں، اس لیے بہار کے عوام کو اب ایک نئے متبادل کی ضرورت ہے۔ اوپیندر کشواہا نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ گزشتہ 30 سالوں سے بہار میں جنگل راج قائم ہے۔ 15 سال پہلے اور آج کے 15 سال والے دونوں ایک ہی سکّے کے دو پہلو ہیں۔ کشواہا نے اشاروں اشاروں میں تیجسوی یادو پر حملہ بھی کر دیا۔ کشواہا نے کہا کہ مہاگٹھ بندھن میں بھی بی جے پی کی مداخلت ہے۔ کشواہا کے مطابق ایسی بحث جاری ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں بی جے پی مہاگٹھ بندھن میں بھی اپنی پکڑ رکھتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اوپیندر کشواہا دو تین دنوں تک دہلی میں تھے اور پیر کے روز پٹنہ پہنچے۔ مہاگٹھ بندھن سے دوریاں بڑھنے کے بعد این ڈی اے کے علاوہ وہ اب تیسرے محاذ کے لیے امکانات بھی تلاش کر رہے ہیں۔ اسی تعلق سے وہ دوپہر میں بی ایس پی کے ریاستی دفتر بھی گئے۔ وہاں اوپیندر کشواہا کی مکیش سہنی اور جے اے پی (پپو یادو کی جن ادھیکار پارٹی) سے بھی ان کی بات ہوئی۔ شام کو وہ پارٹی دفتر پہنچے اور حامیوں سے 24 گھنٹے مزید انتظار کرنے کو کہا۔
سچ تو یہ ہے کہ اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلہ کی نامزدگی کا عمل شروع ہونے میں محض دو دن باقی ہیں اور آر ایل ایس پی اپنی سیاسی زمین تلاش کرتی ہوئی ہی نظر آ رہی ہے۔ آر جے ڈی سے ان کی دوریاں پیر کے روز اس وقت مزید بڑھ گئیں جب آر ایل ایس پی کے ریاستی صدر بھودیو چودھری اور ایک دیگر عہدیدار کی تیجسوی یادو نے اپنی پارٹی میں انٹری دے دی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔