مسجد-مدرسہ کی طرف اٹھا بھاگوت کا قدم، مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش!
کوئی بھی شخص جس دن سے سنگھ میں شامل ہوتا ہے، اس کے دل میں اقلیتوں کے خلاف نفرت بھر دی جاتی ہے، اس لیے یہ خیال کرنا بچگانہ ہوگا کہ سنگھ مسلمانوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی شناخت کچھ بھی ہو لیکن کم از کم یہ تو نہیں ہے کہ یہ تنظیم ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کا کام کرتی ہے۔ سنگھ کی مراٹھی (مہاراشٹرائی) برہمن قیادت درحقیقت اپنے 'ہندو راشٹرا' کے بنیادی نظریہ کو ٹھوس شکل دینے کی کوشش کرتی ہے۔ اور، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، وہ مسلمانوں، دلتوں اور پسماندہ لوگوں کو بدنام اور ذلیل کرنے کا کام باقاعدگی سے کرتی رہتی ہے۔
سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کی مسجد اور مدرسہ کا دورہ کر کے مسلمانوں تک پہنچنے کی اچانک کوشش کے بنیادی طور پر دو پہلو ہیں۔ اول، ملک کے سیاسی بیانیہ پر دائیں بازو کی کمزور ہوتی گرفت کو دوبارہ مضبوط کرنا اور دوسرا انتخابی موسم میں مسلمانوں کو گمراہ کر کے ان میں انتشار پیدا کرنا۔ ان کے اس اقدام کا ایک اور مقصد ملک کے مسلمانوں، لبرل طبقوں اور سیکولر عناصر کو یہ پیغام دینا ہے کہ بھگوا رہنما جمہوری نظام پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ایسے میں اگر بات چیت نہ ہو تو جمہوریت کا کیا مطلب؟
لیکن سنگھ کی اس کوشش سے کچھ سوالات بھی اٹھتے ہیں کہ کیا بات چیت صحیح معنوں میں ہوئی اور اس میں کتنی سنجیدگی اور خلوص تھا۔ مسلمانوں نے بھاگوت پر اس یقین کے ساتھ بھروسہ کیا کہ وہ ملک کے سماجی ماحول اور منظر نامہ میں حقیقی تبدیلی لا سکتے ہیں اور مانا جاتا ہے کہ بھاگوت نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے لیکن اس کے نتائج آنا باقی ہیں۔
ہندوستان اور ہندوستان کے لوگ صرف ایک شخص کو بابائے قوم کہتے ہیں اور وہ ہیں مہاتما گاندھی لیکن پہلی بار کسی مسلمان نے بھاگوت کے لیے یہ لفظ استعمال کیا۔ اس طرح یہ پہلا موقع ہے کہ سنگھ کے سربراہ کو مہاتما گاندھی کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ تو کیا مانا جائے کہ اس طرح ساورکر کو ہیرو کے طور پر قائم کرنے کی سمت میں ایک قدم اٹھایا گیا ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ سنگھ اور بی جے پی طویل عرصے سے ساورکر کو قومی ہیرو بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح سنگھ اور بی جے پی یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ساورکر انگریزوں کے حامی نہیں تھے بلکہ قوم پرست تھے۔
ویسے سیاسی طور پر ایک نادان شخص بھی جانتا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کو اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں سے کوئی محبت نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص جس دن سے سنگھ میں شامل ہوتا ہے، اسے اقلیتوں کے تئیں نفرت کا سبق سکھایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ خیال کرنا بچگانہ ہوگا کہ سنگھ مسلمانوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کے پاس ہندوستانی سیاست کو مثبت انداز میں ترتیب دینے کا کوئی بنیادی خیال یا تصور نہیں ہے۔ اگر یہ ان کے ذہن یا خیالات میں ہوتا تو وہ کسانوں، محنت کشوں، طلبا اور کچھ مذہبی اور علاقائی اقلیتوں کو الگ تھلگ نہیں کرتے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مسلمانوں تک آر ایس ایس کی پہنچ واضح طور پر منافقت اور موقع پرستی کے سوا کچھ نہیں۔
مودی حکومت کے دوران بھاگوت نے کبھی بھی مسلمانوں کی لنچنگ کے خلاف بات نہیں کی اور نہ ہی ان بی جے پی لیڈروں پر تنقید کی جو لنچنگ کی سرپرستی کرتے ہیں یا ان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ ایسے عناصر کو نظریاتی اور سیاسی خول فراہم کراتے رہے ہیں۔
اتر پردیش اور آسام میں بی جے پی کی حکومتیں جو سنگھ کے لوگوں سے بھری ہوئی ہیں، مدارس کو بدنام کرنے کی مہم میں لگی ہوئی ہیں۔ بی جے پی لیڈران کھلے عام مدارس کو دہشت گردوں کی نرسری قرار دیتے ہیں۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جس وقت موہن بھاگوت مسلمانوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے یا دکھاوا کر رہے تھے، اسی دوران پی ایف آئی (پاپولر فرنٹ آف انڈیا) پر ملک بھر میں چھاپے مارے جا رہے تھے۔ پی ایف آئی پر مبینہ طور پر دہشت گردی اور دہشت گردانہ نظریہ پھیلانے کا الزام ہے۔
بھاگوت کا مشورہ ہے کہ مدرسوں میں طلباء کو قرآن کے ساتھ بائبل اور بھگوت گیتا بھی پڑھائی جائے۔ تو کیا یقین کیا جائے کہ سنگھ کے زیر انتظام اسکولوں (ششو مندروں) میں بھی قرآن اور بائبل کی تعلیم دی جائے گی۔ اس پر تو خاموشی ہے۔
سنگھ کے لوگ بھاگوت کے مسجد اور مدرسہ کے دورے کو دونوں برادریوں کے درمیان جاری تنازع کو ختم کرنے کی طرف ایک قدم سمجھتے ہیں۔ اور مسلمانوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہندوستانی سمجھیں اور ایسا ہی سلوک کریں۔ تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب تک سنگھ کے لوگ مسلمانوں کو ہندوستانی نہیں مانتے؟
بھاگوت اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ان کا یہ قدم صرف اور صرف سیاسی اور انتخابی خدشات پر اٹھایا گیا ہے اور ان کے بنیادی فرقہ وارانہ نظریے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
آر ایس ایس سے اقلیتوں، دلتوں اور مسلمانوں کے تئیں اپنا نقطہ نظر اور نظریہ بدلنے کی توقع رکھنا فضول ہوگا۔
(یہ مصنف ارون سریواستو کے ذاتی خیالات ہیں)
(آئی پی اے سروس)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔