بھارت جوڈو یاترا: ’رُک کے دیکھے نہ کبھی پاؤں کے چھالے ہم نے!‘

وہ بظاہر تھک چکے ہیں اور کچھ کو تو یہ ڈر بھی ستانے لگا ہے کہ آیا وہ منزل مقصود تک ساتھ نبھا پائیں گے؟ کنیا کماری سے 150 دنوں میں کشمیر تک 3570 کلومیٹر پیدل چلنے کا خیال بھی پریشان کن ہوتا ہے

تصویر ایشلن میتھیو
تصویر ایشلن میتھیو
user

ایشلن میتھیو

بھارت جوڑو یاترا کے نام سے کانگریس پارٹی کا طویل مارچ جاری ہے۔ دس دن اور 200 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد متعدد یاتریوں کے پاؤں میں چھالے پڑ چکے ہیں، ٹخنوں میں سوجن ہے، گھٹنوں کا درد اور دوسری پریشانیوں کا بھی سامنا ہے۔ یہاں تک کہ کئی یاتریوں کے پاؤں تو زخمی بھی ہو چکے ہیں، جن سے خون بہہ رہا ہے۔ وہ بظاہر تھک چکے ہیں اور کچھ کو تو یہ ڈر بھی ستانے لگا ہے کہ آیا وہ منزل مقصود تک ساتھ نبھا پائیں گے؟ کنیا کماری سے 150 دنوں میں کشمیر تک 3570 کلومیٹر پیدل چلنے کا خیال بھی پریشان کن ہوتا ہے۔ یہ شعر پد یاتریوں کے لیئے موزوں ہے، ’زندگی نام ہے چلنے کا تو چلتے ہی رہے، رک کے دیکھے نہ کبھی پاؤں کے چھالے ہم نے!‘

لیکن یاترا چھوڑنے کا خیال تک ان کے ذہن میں نہیں ہے۔ بھارت یاتریوں (جو پوری یاترا ساتھ رہیں گے) کو پہلے ہی خبردار کر دیا گیا تھا کہ پہلے چند سو کلومیٹر سب سے مشکل ہوں گے۔ وہ اس لمحے کا انتظار کر رہے ہیں جب ان کا جسم اور پاؤں روزانہ 20-25 کلومیٹر پیدل چلنے کے عادی ہو جائیں گے۔ انہوں نے دگوجے سنگھ جیسے تجربہ کار پدیاتریوں سے سنا ہے کہ ’اس موڑ‘ کے بعد یہ طویل مارچ بہت آسان ہو جائے گا۔ تمام یاتری اس نقطہ تک پہنچے کی جستجو میں پورے خوش و خروش کے ساتھ درد کی انتہا تک پہنچنے کو آمادہ نظر آتے ہیں۔


وہ مسکرا کر کہتے ہیں کہ میڈیا میں ایسے لکڑبگے گھات لگائے بیٹھے ہیں جو کسی کے بھی یاترا چھوڑنے کا انتظار کر رہے ہیں، اگر ایسا ہوا تو یقیناً ٹی وی چینلز بے قابو ہو جائیں گے! انہیں 81 سالہ اے کے انٹونی نظر آ رہے ہیں، جو یاتریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے باہر نکلے ہیں اور وہ راہل گاندھی سے بھی خوفزدہ ہیں، جو تیز رفتاری سے چلتے ہیں اور کوئی ایسی علامت ظاہر نہیں کر رہے ہیں کہ انہیں کوئی دقت محسوس ہو رہی ہے۔

یاترا میں ایک ایسی توانائی پیدا ہو گئی ہے جو ایک یاتری سے دوسرے یاتری میں منتقل ہو رہی ہے۔ ان کا درد اکثر انہیں سست کر دیتا ہے لیکن وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے ہیں، مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں اور پیش قدمی کرنے لگتے ہیں۔ راستہ میں لوگوں کا انہیں خراج تحسین پیش کرنا، انہیں پانی پلانا اور پھولوں کے ہار پہنانا ان کا حوصلہ بلند کرتا ہے۔ ایک یاتری کے بقول ’ایک بڑے مقصد کے مقابلہ میں ہم جو درد برداشت کر رہے ہیں وہ بہت معمولی سا ہے!

چھتیس گڑھ کے جشپور سے تعلق رکھنے والی رتنا پینکرا لنگڑا رہی ہیں۔ ان کے گھٹنے میں شدید درد ہے لیکن وہ فاصلہ طے کرنے پر مصر ہیں۔ ان کا خاندان کنیا کماری سے کشمیر تک چلنے کے ان کے فیصلے کی حمایت کرتا رہا ہے۔ ضلع پریشد کی رکن پینکرا کہتی ہیں ’’ملک ٹوٹ رہا ہے۔ لوگوں کی خوشحالی کے لیے ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے۔ ہم چھوٹی موٹی سیاست پر وقت ضائع نہیں کر سکتے۔ ہم ملک کی دوسری تقسیم یا خانہ جنگی کو برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘


ترواننت پورم کے نیموم کی رہنے والی دیلا بیوی راہل گاندھی کو سب سے زیادہ معتبر سیاست دان قرار دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ملک میں امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والے اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے سیاستدانوں کی حمایت کرنا ضروری ہے۔‘‘ وہ ایک 'پردیش یاتری' ہیں۔

تلنگانہ سے تعلق رکھنے والی انولیکھا بوسہ وکیل اور کانگریس سے وابستہ این ایس یو آئی (نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا) کی انچارج قومی سکریٹری اوڈیشہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’آپ انہیں ٹی وی پر نہیں دیکھیں گے اور نہ ہی ٹی وی اسٹوڈیوز میں ان کی آوازیں سنیں گے لیکن ایسے ہندوستانی ہیں جو شدت سے تبدیلی چاہتے ہیں۔ انہیں سننے اور ان کے خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘


تلنگانہ کی ایک اور رہائشی اور سرپنچ فورم کی ریاستی صدر دھن لکشمی کہتی ہیں ’’میں تمام ریاستوں کا دورہ کرنا چاہتی ہوں اور کسانوں اور خواتین کے مسائل کو سمجھنا چاہتی ہوں۔ مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ کیرالہ میں زمین کی کمی ہے لیکن یہاں کے لوگ متحد ہیں۔‘‘ دھن لکشمی کے لیے پیدل چلنا آسان ہے کیونکہ وہ بھودان تحریک کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر تلنگانہ کے بھودان پوچامپلی سے مہاراشٹر کے سیواگرام تک 600 کلومیٹر کی پیدل یاترا کا حصہ رہ چکی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔