اتر پردیش میں ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا راستہ ’ماسٹر اسٹروک‘ سے کم نہیں، ایس پی، بی ایس پی اور آر ایل ڈی ٹینشن میں!
اتر پردیش میں بھارت جوڑو یاترا کے مقرر کردہ راستہ پر نظر ڈالیں گے تو شاملی، کیرانہ اور باغپت کے ایسے علاقوں سے اس کا گزر ہونے والا ہے جہاں ایک بڑی مسلم آبادی مقیم ہے۔
راہل گاندھی کی قیادت میں جاری تاریخی ’بھارت جوڑو یاترا‘ اس وقت آرام کر رہی ہے۔ یہ یاترا 3 جنوری سے ایک بار پھر شروع ہوگی جب بھارت یاتری راجدھانی دہلی سے اتر پردیش کی طرف قدم بڑھائیں گے۔ اتر پردیش میں ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے لیے طے کردہ راستہ کا خاکہ پہلے ہی جاری کر دیا گیا ہے اور یہ کانگریس کا ایک ’ماسٹر اسٹروک‘ معلوم پڑ رہا ہے۔ دراصل بھارت جوڑو یاترا جن راستوں سے ہو کر اتر پردیش میں گزرنے والی ہے، اس نے ایس پی، بی ایس پی اور آر ایل ڈی کو ٹینشن میں ڈال دیا ہے۔
اتر پردیش میں بھارت جوڑو یاترا کے مقرر کردہ راستہ پر نظر ڈالیں گے تو شاملی، کیرانہ اور باغپت کے ایسے علاقوں سے اس کا گزر ہونے والا ہے جہاں ایک بڑی مسلم آبادی مقیم ہے۔ مغربی اتر پردیش میں مسلم ووٹ بینک انتخاب میں اہم کردار نبھاتا ہے۔ ان علاقوں میں ایس پی، بی ایس پی اور آر ایل ڈی مسلم طبقہ کے ووٹ کا بڑا حصہ حاصل کرتے ہیں۔ ایسے میں راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا مسلم طبقہ کو ایک نیا پیغام دیتی ہوئی معلوم پڑ رہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس کی طرف سے اتر پردیش کی اپوزیشن پارٹیوں کو یاترا میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ فی الحال سماجوادی پارٹی، آر ایل ڈی اور بی ایس پی تینوں کے سربراہان نے اس یاترا میں شامل ہونے کی منشا ظاہر نہیں کی ہے۔ اکھلیش یادو نے تو کوئی دعوت نامہ نہ ملنے کی بات بھی کہی ہے۔ دراصل اس یاترا میں ایس پی، بی ایس پی اور آر ایل ڈی سربراہان کے شامل ہونے کا مطلب ہے اپنے ہی ووٹ کو کانگریس کی طرف دھکیل دینا۔ ویسے ان لیڈروں کے شامل نہ ہونے کے باوجود راہل گاندھی اور ان کی بھارت جوڑو یاترا لوگوں کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ پائے گی۔ ایسا اس لیے کہا جا سکتا ہے کیونکہ جہاں جہاں سے بھی یہ یاترا گزر رہی ہے، لوگوں کا زبردست پیار اسے حاصل ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ اتر پردیش میں ایک وقت تھا جب مسلمان اور دلت کانگریس کا مضبوط ووٹ بینک ہوا کرتے تھے۔ لیکن 90 کی دہائی میں مسلم ووٹ بینک سماجوادی پارٹی کے ساتھ چلا گیا اور دلت ووٹوں پر بی ایس پی کا یکمشت قبضہ ہو گیا۔ کانگریس دونوں ہی طبقہ کے ووٹروں کو ایک بار پھر اپنی طرف کھینچنے کی پالیسی پر کام کر رہی ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں ہی پرینکا گاندھی کی ایک ٹیم دلت اکثریتی سیٹوں پر کام کر رہی تھی جو اس وقت مایاوتی کی تلخ بیان بازی کی وجہ بھی بنی تھی۔ اب باغپت، کیرانہ اور شاملی کے مسلم اکثریتی علاقوں سے یاترا کو نکالنے کا مقصد بھی ایک پالیسی کا حصہ ہو سکتا ہے۔ جن مقامات سے یہ یاترا نکلے گی وہاں پر تقریباً 30 فیصد ووٹر مسلم ہیں۔ یہ کانگریس کے لیے یوپی میں بڑا ماسٹر اسٹروک ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ یوپی میں شاید دہائیوں بعد کانگریس کا کوئی بڑا لیڈر لوگوں سے ملنے کے لیے اس طرح کی یاترا کر رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔