بھارت بند: ریزرویشن معاملے پر سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ، جس کی وجہ سے دلتوں نے تحریک شروع کی

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ریاستی حکومتیں درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل زمروں کے لیے سب کیٹیگری بنا سکتی ہیں تاکہ سب سے ضرورت مند کو ریزرویشن میں ترجیح مل سکے

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ آف انڈیا / تصویر: آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ آف انڈیا / تصویر: آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

ریزرویشن پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف دلت اور قبائلی تنظیموں نے آج 'بھارت بند' کا اعلان کیا ہے، جسے کانگریس، آر جے ڈی، بایاں بازو جماعتوں سمیت کئی اپوزیشن پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ نے حال میں جو کوٹہ میں کوٹہ والا فیصلہ سنایا ہے اسے وہ واپس لے یا اس پر نظر ثانی کرے ساتھ ہی ایس سی – ایس ٹی اور او بی سی کے لیے ریزرویشن پر نیا قانون منظور کیا جائے۔ 'آرکشن بچاؤ سمیتی' نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

دراصل معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں طویل عرصے سے نوکریوں میں ریزرویشن دینے کے لیے ایس سی-ایس ٹی طبقہ کو سب کیٹیگری میں ریزرویشن دیے جانے کا مطالبہ التوا میں تھا۔ اس پر سپریم کورٹ نے یکم اگست کو بڑا قدم اٹھاتے ہوئے اپنے 2004 کے فیصلے کو پلٹ دیا اور پنجاب درج فہرست ذات اور پسماندہ طبقہ قانون 2006 اور تمل ناڈو ارونتھتھیار قانون پر اپنی مہر لگاتے ہوئے کوٹہ کے اندر کوٹہ (سب کیٹیگری میں ریزرویشن) کو منظوری دے دی۔


غور طلب رہے کہ 2004 میں سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی بنچ نے ای وی چنیا بمقابلہ آندھرا پردیش حکومت سے جڑے معاملے میں فیصلہ دیا تھا کہ ریاستی حکومتیں نوکری میں ریزرویشن کے لیے درجہ فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کو سب کیٹیگری نہیں بنا سکتیں کیونکہ وہ اپنے آپ میں 'ہوموجینیس گروپ' ہیں جبکہ اس فیصلے کے خلاف جانے والی پنجاب حکومت کی منطق تھی کہ اندرا ساہنی بمقابلہ انڈین یونین میں سپریم کورٹ کے 1992 کے فیصلےکے تحت یہ قابل قبول تھا، جس نے دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) کے اندر سب کیٹیگری کو منظوری دی تھی۔ پنجاب حکومت نے مطالبہ کیا تھا کہ درج فہرست ذات کے اندر بھی سب کیٹیگری کی اجازت دی جانی چاہیے۔

2020 میں سپریم کورٹ نے طے کیا کہ اس پر بڑی بنچ کے ذریعہ پھر سے غور کیا جانا چاہیے اور چیف جسٹس آف انڈیا کی قیادت میں 7 ججوں کی آئینی بنچ تشکیل دی گئی۔ اس بنچ نے جنوری 2024 میں تین دنوں تک معاملے میں دلیلیں سنیں اور اپنا فیصلہ محفوظ رکھنے کے بعد یکم اگست کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس بی آر گوئی، جسٹس وکرم ناتھ، جسٹس بیلا ایم ترویدی، جسٹس پنکج متھل، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش چندر شرما کی بنچ نے فیصلہ سنایا۔ حالانکہ جسٹس بیلا ترویدی نے اس فیصلے پر نااتفاقی ظاہر کی تھی۔


 آئینی بنچ نے 1-6 کی اکثریت سے فیصلہ سنایا کہ ریاستوں کو ریزرویشن کے لیے کوٹہ کے اندر کوٹہ بنانے کا حق ہے۔ یعنی ریاستی حکومتیں درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل زمروں کے لیے سب کیٹیگری بنا سکتی ہیں تاکہ سب سے ضرورت مند کو ریزرویشن میں ترجیح مل سکے۔ ریاستوں کی اسمبلی اس سلسلے میں قانون بنانے میں اہل ہوں گی۔ حالانکہ عدالت نے یہ بھی کہا کہ سب کیٹیگری کی بنیاد مناسب ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ کے سلسلے میں کہا کہ ایسا کرنا آئین کی دفعہ 341 کی خلاف ورزی نہیں ہے۔  عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ درج فہرست ذات کے اندر کسی ایک ذات کو 100 فیصد کوٹہ نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں شامل کسی ذات کا کوٹہ طے کرنے سے پہلے اس کی حصہ داری کا پختہ اعداد و شمار ہونا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔