رافیل سےقبل انل امبانی کی کمپنی نے روس کے ساتھ کی تھی ڈیفنس معاہدہ کی ناکام کوشش
وزیر اعظم نریندر مودی جب ڈیفنس معاہدہ کے لیے روس گئے تھے تو امبانی بھی روس میں ہی تھے اور اپنی نوتشکیل کمپنی کے لیے ٹھیکہ حاصل کرنے کے لیے خوب کوششیں کر رہے تھے۔
کانگریس لیڈر سنجے جھا نےر افیل معاہدہ سے متعلق ایک بار پھر ریلائنس ڈیفنس کے مالک انل امبانی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے اکونومکس ٹائمز کی ایک خبر ٹوئٹ کرتے ہوئے انل امبانی پر طنز کستے ہوئے لکھا کہ "رافیل گھوٹالہ! روس کے سلاد سے فرانس کا سوپ بہتر ہے۔"
اکونومک ٹائمس کی خبر کے مطابق رافیل طیارہ معاہدہ کے آف سیٹ ٹھیکے میں بے ضابطگی سے متعلق تنازعات میں پھنسے انل امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس نے اس سے قبل روس سے بھی دفاعی معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن تین بار بڑے سودے کے لیے کوشش کرنے کے باوجود انھیں ٹھیکہ نہیں دیا گیا۔ توجہ رہے کہ روس ہندوستان کا پرانا دفاعی معاون رہا ہے۔
خبروں کے مطابق ان دفاعی معاہدوں کے لیے گہرے غور و خوض کے بعد روس نے ہندوستان کی پبلک یونٹ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ سے ساجھیداری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت ایک ارب ڈالر کے خرچ سے ہندوستان میں کاموو کے اے-226 ہلکے ہیلی کاپٹر کی مینوفیکچرنگ یونٹ قائم کیا جانا تھا۔
اپریل 2015 میں رافیل معاہدہ کو آخری شکل دیے جانے کے وقت جس طرح انل امبانی پیرس میں موجود تھے، ٹھیک اسی طرح وہ اسی سال دسمبر میں وزیر اعظم نریندر مودی کے روس دورہ کے دوران بھی وہاں موجود تھے اور اپنی نوتشکیل کمپنی کے لیے ٹھیکہ حاصل کرنے کے لیے بے پناہ کوششیں کر رہے تھے۔ اس دورے پر سب سے پہلے کاموو ہیلی کاپٹر معاہدے کو آخری شکل دی گئی تھی۔ اس معاہدے میں شراکت دار بننے کے لیے ریلائنس ڈیفنس کئی مہینوں سے روس سے بات چیت کر رہا تھا، اور بات چیت کافی آگے بھی بڑھ چکی تھی لیکن آخر وقت میں روس نے ہندوستان کی پبلک کمپنی کے ساتھ شراکت داری کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ روس کا پرانا معاون رہا ہے کیونکہ یہ پہلے سے ہی سکھوئی طیارہ کی تعمیر کر رہا ہے۔ خبروں کے مطابق روس کے ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ روس اس بات پر بضد تھا کہ پرائیویٹ سیکٹر کی یونٹ کو "سرکار کے ذریعہ پیش کردہ" ہونا چاہیے۔ ریلائنس ڈیفنس اس اہلیت پر کھرا نہیں اترتا تھا، کیونکہ حکومت ہند آفیشیل طور پر کسی پرائیویٹ کمپنی کو نامزد یا اس کی پیروی نہیں کرتا۔ اسی سفر کے دوران دونوں حکومتوں کے درمیان 2.5 ارب ڈالر کی تخمینی لاگت پر ہندوستانی بحریہ کے لیے چار فرگیٹ کی خریداری کا معاہدہ بھی ہوا تھا۔
اس کے علاوہ ریلائنس ڈیفنس روس کی یونائٹیڈ شپ بلڈنگ کارپوریشن (یو ایس سی) کے ساتھ جنگی بحری جہاز کی تعمیر میں ہندوستانی شراکت دار بننے کے لیے بات چیت کر رہا تھا۔ اس کے لیے ریلائنس ڈیفنس نے یوکرین کی اس کمپنی کے ساتھ بھی معاہدہ کیا تھا جس نے جنگی جہاز کے انجنوں کی تعمیر کی تھی۔ حالانکہ یو ایس سی کے ذریعہ ریلائنس ڈیفنس کو پسندیدہ متبادل فہرست میں رکھنے کے باوجود حکومت نے اپنی ملکیت والے گووا شپ یارڈ لمیٹڈ (جی ایس ایل) کو نامزد کیا۔ حالانکہ اس معاہدے کو روس کے صدر پوتن کے اکتوبر میں ہندوستانی دورہ کے دوران آخری شکل دی جا رہی گا۔
آفسیٹ ٹھیکہ لینے کے لیے ایس 400 میزائل دفاعی سسٹم کی تعمیر کرنے والی کمپنی الماز اینٹے کے ساتھ شراکت داری ریلائنس ڈیفنس کا سب سے دیرینہ منصوبہ تھا۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم مودی کے ماسکو دورہ کے دوران ریلائنس ڈیفنس نے 39500 کروڑ روپے کے معاہدے کے لیے روسی کمپنی کے ساتھ قرار بھی کر لیا تھا۔ حالانکہ حکومت ہند نے اس معاہدے میں شراکت دار بننے کے ریلائنس کے سبھی امکانات ختم کرتے ہوئے روس کی درخواست پر ایس 400 معاہدے میں سے 30 فیصد آفسیٹ کے لازمی پوائنٹ کو ہٹا دیا تھا۔
غور طلب ہے کہ لگاتار کوششوں کے باوجود ریلائنس ڈیفنس کو روس کے ساتھ شراکت داری میں کوئی کامیابی نہیں ملی، لیکن اکتوبر 2016 میں کمپنی کو دفاعی سیکٹر میں اپنی پہلی بڑی کامیابی اس وقت ملی جب اس نے رافیل معاہدہ کے آفسیٹ ٹھیکہ کے لیے فرانس کی سب سے بڑی طیارہ کمپنی ڈیسالٹ ایویشن کے ساتھ ایک نئی مشترکہ کمپنی بنانے کا اعلان کیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔