شہد کی مکھی پالنے اور گیندے کے پھول کی پروسیسنگ سے کسانوں کی آمدنی ہوئی دوگنی

گاؤں میں ایک عوامی سہولت کا مرکز (سی ایف سی) قائم کیا گیا ہے اور کسانوں کو شہد کی پروسیسنگ اور پیکنگ کے کام میں تربیت دی گئی ہے۔ وہ مقامی سطح پر 500-600 روپے فی کلوگرام شہد فروخت کررہے ہیں۔

شہد کی مکھی / GettyImages
شہد کی مکھی / GettyImages
user

یو این آئی

نئی دہلی: ہماچل پردیش کے کسانوں نے گیلی مٹی سے بنے چھتے سے شہد کی مکھی پالنے کی تکنیک اختیار کرکے جنگلی گیندے کے پھول کی پروسیسنگ سے اپنی آمدنی دوگنی کرلی ہے۔ شہد کی مکھیوں کے پالنے سے پولینیشن میں بہتری آئی ہے، جس سے سیب کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا ہے اور سیب کے کاشتکاروں کی آمدنی میں 1.25 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ہماچل پردیش کے منڈی ضلع کے تلہار میں سائنس اور ٹکنالوجی کے محکمے کے سیڈ ڈویژن کے ٹائم لرن پروگرام کے تحت سوسائٹی فار فارمرس ڈیولپمنٹ کے ذریعہ ریجنل ہارٹیکلچر ریسرچ اسٹیشن (آر ایچ آر ایس) باجوڑا کے ڈاکٹر وائی ایس پرمار، یو ایچ ایف کے تکنیکی تعاون سے ریاست کے ضلع منڈی بالی چوکی بلاک کے جوالا پور گاؤں میں دیسی مکھیوں (اپس سرینا) کے لئے اس تکنیک کی شروعات کی گئی تھی۔ جس میں ضلع کے کل 45 کسانوں نے حصہ لیا۔ تربیت یافتہ کسانوں کے ذریعہ تیار کردہ 80 مٹی کے چھتے سیب کے باغات میں لگائے گئے تھے، جس نے چھ گاؤں میں کل 20 ہیکٹر اراضی کا احاطہ کیا تھا۔

گیلی مٹی کے چھتہ سے مکھیاں پالنے کی ٹیکنالوجی دیوار چھتہ اور لکڑی کے چھتے کی ٹیکنالوجی کا امتزاج ہے۔ اس میں مٹی کے چھتے کے اندر فریم لگانے اور زیادہ سازگار حالات کے لئے داخلی التزام ہے۔ جس میں خاص طور پر لکڑی کے پتے کے مقابلے میں، سال بھر مکھیوں کے لئے درجہ حرارت موافق ہوتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی پہلے سے استعمال کی جانے والی لڑکی کے باکس والی تکنیک کے مقابلے زیادہ فائدہ مند ہے۔ دیسی مکھیاں سیب کے باغ کے علاقے میں بہتر طریقے سے زندہ رہ سکتی ہیں، اس تکنیک کے ذریعہ اطالوی شہد کی مکھیوں کے مقبالے سیب کے باغوں کی اوسط پیداوار کو تقریباً 25 فیصد بڑھانے میں مدد ملی ہے۔


موجودہ مٹی کے چھتے میں اس کی بنیاد پر ایلومینیم شیٹ رکھ کر چھتے کے اندر آسانی سے صفائی کا التزام فراہم کرائے گئے ہیں۔ اس شیٹ کو گائے کے گوبر سے سیل کردیا جاتا ہے اور مٹی کے چھتے کو کھولے بغیر ہی صفائی کے لئے ہٹایا جاسکتا ہے۔ مٹی کے چھتے کی چھت بھی پتھر کی سلیٹ سے بنی ہوتی ہے جو بہتر حفاظتی فراہم کرتی ہے اور چھتے کے اندر موافق درجہ حرارت بنائے رکھتی ہے۔ اس تکنیک نے لکڑی کے باکسوں کی طرح شہد کے عرق کا استعمال کرکے ہائیجینک طریقے سے شہد کے حاصل کرنے میں بھی مدد کی ہے اور بہتر منیجمنٹ سسٹم کو سامنے رکھا ہے، جیسے کہ رواتی دیور کے چھتے کے مقابلے میں غذا، تجزیہ گروپ اور کالونیوں کا تقسیم ہے۔

گاؤں میں ایک عوامی سہولت کا مرکز (سی ایف سی) قائم کیا گیا ہے اور کسانوں کو شہد کی پروسیسنگ اور پیکنگ کے کام میں تربیت دی گئی ہے۔ وہ مقامی سطح پر 500-600 روپے فی کلوگرام شہد فروخت کررہے ہیں۔ ہماچل پردیش میں چمبا ضلع کے کسانوں نے مکا، دھان ار گیہوں جیسے روایتی فصلوں سے فاضل آمدنی کے لئے نئے متبادل کی تلاش ہے۔ خوشبور دار پودوں کی کاشت نے کسانوں کو فاضل آمدنی مہیا کرائی ہے۔ کسانوں نے اعلی قسم کے جنگلی گیندے (ٹیٹیگس منوٹا) کے پودوں سے خوشبودار تیل نکالا ہے اور جنگلی گیندے کے تیل سے ہونے والے فوائد نے روایتی مکا، گیہوں اور دھان کی فصلوں کے مقابلے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کر دیا ہے۔


سوسائٹی فار ٹیکنالوجی (ایس ٹی ڈی)، منڈی کور سپورٹ گروپ بیج محکمے اور سائنس و ٹکنالوجی کے محکمے کے ذریعہ کیے گئے مختلف طریقوں سے کسانوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی کی ہے۔ سوسائٹی فار ٹیکنالوجی اینڈ ڈیولپمنٹ نے سی ایس آئی آر ۔ ہمالیہ انسٹی ٹیوٹ آف بایوسیمپلڈ ٹکنالوجی پالمپور کے ساتھ مل کر تکنیکی تعاون سے چمبا ضلع کے بھٹیاٹ بلاک کے پروئی میں کسان برادری کو شمل کرتے ہوئے خوشبودار پودوں کی کاشت اور پروسیسنگ کا کام شروع کیا ہے۔ پہلے کسانوں کی آمدنی جو روایتی فصلوں سے فی ہیکیٹئر تقریباً 40000-50000 روپے ہوتی تھی وہیں اب جنگلی گیندے کی کھیتی سے تیل نکالنے سے فی ہیکٹیئر تقریباً 100000 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ حکومت اب اس کو وسعت دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔