بی جے پی کی اپنے گڑھ ’اندور‘ میں بھی حالت خستہ

موجودہ منظر نامے میں کانگریس گزشتہ سال ہوئے اسمبلی انتخابات میں اندور لوک سبھا حلقہ کی 8 میں سے 4 اسمبلی سیٹوں پر قبضہ کر کے پر اعتماد نظر آ رہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

اندور: بھارتیہ جنتا پارٹی کی قدآور لیڈر اور لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن کے نام سے مشہور ہو چکی مدھیہ پردیش کی اندور لوک سبھا سیٹ سے اس مرتبہ سمترا مہاجن کے انتخابی میدان میں نہ ہونے سے یہاں کانگریس امیدوار پنکج سنگھوی اور بی جے پی امیدوار شنکر لالوانی کے درمیان سخت مقابلہ دکھائی دے رہا ہے۔

تاہم اندور لوک سبھا سیٹ کے لیے بی جے پی، کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) اور دیگر پارٹیوں سمیت کل 20 امیدوار قسمت آزما رہے ہیں۔ پھر بھی یہاں اہم مقابلہ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہی دیکھا جا رہا ہے۔ گزشتہ آٹھ بار سے اندور رکن پارلیمنٹ رہیں مہاجن یہاں 1989 میں پہلی بار منتخب ہوئی تھیں۔ مقامی طور پر تائی (بڑی بہن) کے نام سے مقبول مہاجن کی 75 پار کی عمر جب اس مرتبہ انہیں ٹکٹ ملنے میں رکاوٹ لگنے لگی، تب انہوں نے خود ہی انتخاب لڑنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد بی جے پی نے طویل تبادلہ خیال کے بعد لالوانی کو یہاں سے اپنا امیدوار بنایا۔


اندور میں پرائمری تعلیمی ادارے کے منتظمین کے طور پر معروف سنگھوی اس کے پہلے 1998 (12 ویں لوک سبھا) میں سمترا مہاجن کو سخت ٹکر دینے میں کامیاب رہے تھے۔ تب وہ محض 49 ہزار 852 ووٹوں سے سمترا مہاجن سے ہارے تھے۔ اس بار ان کی ٹکر اندور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے دو مرتبہ صدر رہے اور اندور بی جے پی کے سابق سٹی صدر شنکر لالوانی سے ہے۔

لالوانی مختلف سماجی اور ثقافتی تنظیموں کے لیڈر کے طور پر اندور کے عام لوگوں میں پہچان رکھتے ہیں۔ یہاں ووٹنگ کی تاریخ 19 مئی نزدیک آتے آتے دونوں ہی اہم حریف سیاسی جماعتوں (بی جے پی اور کانگریس) نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی بنیادی طور پر وزیر اعظم نریندر مودی، مہاراشٹر کے وزیر اعلی دیویندر فڑنویس، گجرات کے وزیر اعلی وجے رپانی، مرکزی وزیر نتن گڈکری اور نریندر سنگھ تومر سمیت تقریباً ایک درجن انتخابی تشہر کاروں کو میدان میں اتار چکی ہے۔بی جے پی یہاں نوٹ بندی، گڈس اینڈ سروس ٹیکس (جی ایس ٹی) جیسے اپنے فیصلوں کا دفاع کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کی بے داغ شبیہ کو پیش کر کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔


سال 2009 (15 ویں لوک سبھا) میں کانگریس نے محض 11 ہزار 480 ووٹوں سے اندور سیٹ گنوائی تھی۔ جبکہ سال 2014 (16 ویں لوک سبھا) میں مودی لہر کے سبب سمترا مہاجن نے اپنے لوک سبھا الیکشن کی سب سے بڑی ریکارڈ جیت 4 لاکھ 66 ہزار 901 ووٹوں سے اپنے نام کی تھی۔ موجودہ منظر نامے میں کانگریس گزشتہ سال ہوئے اسمبلی انتخابات میں اندور لوک سبھا حلقہ کی 8 میں سے 4 اسمبلی سیٹوں پر قبضہ کر کے پر اعتماد نظر آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کے حق میں یہاں انتخابی تشہر میں اترے ان نمایاں تشہر کار وزیر اعظم اور بی جے پی کو نوٹ بندی، جی ایس ٹی، اسمارٹ سٹی، روزگار، کسانوں کے مسائل پر گھیر رہے ہیں۔ کانگریس نے اب تک یہاں خاص طور پر پرینکا گاندھی، نوجوت سنگھ سدھو، بھوپیش بگھیل جیسے نمایاں تشہر کا روں کو انتخابی تشہر کے لئے میدان میں اتارا ہے۔

بی جے پی کی جانب سے یہاں مقامی رکن اسمبلی رمیش میدولا نے بطور لوک سبھا کنوینر کمان سنبھال رکھی ہے۔ سابق وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان، سمترا مہاجن بی جے پی امیدوار لالوانی کی حمایت میں عوام سے رابطہ کر رہیں ہیں۔ جبکہ کانگریس کی جانب سے اسٹریٹجک طور پر یہاں کمان مدھیہ پردیش سرکار کے وزیر سجن سنگھ ورما، تلسی رام سلاوٹ اور جیتو پٹواری کے ہاتھوں میں ہے۔ وزیر اعلی کمل ناتھ بھی تاجروں اور صنعت کار طبقے سے ملاقاتیں کر کے عوامی حمایت کی اپیل کر رہے ہیں۔ وسطی ہندوستان میں اقتصادی دارالحکومت کے طور پر قائم اندور لوک سبھا حلقہ وسط میں شہری اور اس سرحدی علاقوں میں دیہی آبادی رہایش پزیر ہے۔ تعلیم، کاروبار، صنعتوں کے ساتھ یہاں بڑی تعداد میں لوگ نوکری پیشہ ہیں۔ دوسرا یہاں ایک بڑے طبقے کا انحصار زراعت پر مبنی ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے قبضے میں اندور دیہی علاقوں کی تینوں اور شہری علاقے کی ایک اسمبلی سیٹ گئی تھی۔ بی جے پی نے اندور شہر کی 4 اسمبلی سیٹوں پر جیت درج کی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔