بی جے پی نے بشیر ہاٹ واقعہ کا سیاسی استعمال کیا :رپورٹ

ریاستی حکومت ان افراد کو پکڑنے میں ناکام رہی جنہوں نے بھیڑ کو جمع کیا اور انہیں اکسایا

بشیر ہاٹ فساد کے دوران جلائی گئی پولیس کی گاڑی/Getty Images
بشیر ہاٹ فساد کے دوران جلائی گئی پولیس کی گاڑی/Getty Images
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی :مغربی بنگال کے بشیر ہاٹ اور بدوریا میں جولائی ماہ کے دوران ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی جس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ فسادات اچانک اور ایک دم ہوئے تھے اور اس کے لئے بھیڑ کو جمع کیا گیاتھا۔ ٹیم کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے ہندو ووٹ کو مضبوط کرنے کے لئے اس واقعہ کا استعمال کیا ۔

جولائی ماہ میں یہ خبر بڑے پیمانے پر شائع ہوئی تھی کہ مسلمانوں کے ہجوم نے 2 جولائی سے لے کر 5 جولائی تک سڑکوں پر فساد کیا تھاور ہندوؤں کی بھیڑ نے بھی فساد کیا خاص طور سے 6 جولائی کو بشیر ہاٹ میں ۔ مغربی بنگال کے شمالی پرگنہ ضلع میں جولائی کے پہلے ہفتے کے دوران سوشل میڈیا پر حضور کی شان میں ایک توہین آمیز پوسٹ ڈالے جانے کے بعد وہاں پر سنگین صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ اس فساد میں ایک شخص ہلاک ہوا تھا، متعدد زخمی ہوئے تھے اور کئی لوگ لاپتہ ہو گئے تھے۔ اب تک ریاستی تحقیقاتی ادارے یہ پتہ لگانے میں ناکام رہے ہیں کہ یہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے ہجوم کو پہلے منظم کیا اور پھر تشدد کے لئے اکسایا۔ مذکورہ توہین آمیز پوسٹ کے علاوہ سوشل میڈیا پر ایک دیگر پوسٹ بھی شیئر کی گئی جس میں پہلی پوسٹ ڈالنے کے ملزم سووک سرکارکے گلے میں پھانسی کا پھندہ دکھایا گیا۔ حلانکہ پولیس کی طرف سے ایسی کسی بھی پوسٹ کے علم میں ہونے سے انکار کیا گیا ہے۔

تحقیقاتی ٹیم کے رکن مورخ امریش مشرا کہتے ہیں، ’’ایک خاص مدت کے دوران دو پوسٹوں کو سوشل میڈیا پر سرکولیٹ کیا گیا۔ اور جن اوقات میں ان کو سرکولیٹ کیا گیا وہ وقت کافی اہمیت رکھتا ہے ۔ مسلم نوجوانوں کے وسیع پیمانے پر ہجوم کی شکل میں جمع ہونا ایک تشویشناک پہلو ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ سماجی تنظیمیں اور انتظامیہ ایسے اقدام اٹھائیں جس سے نو جوان کسی بھی جھوٹی اور غلط پوسٹ یا پروپیگنڈا سے گمراہ نہ ہوں ‘‘

تحقیقاتی ٹیم کو آل انڈیا سیکولر فورم (اے آئی ایس ایف ) کی طرف سے تشکیل دیا گیا تھا جس میں مورخ امریش مشرا کے علاوہ صحافی اروپ چندرا ، اے آئی ایس ایف کے ممبر محمد جلال الدین، سنٹر فار اسٹدی آف سوسائٹی (سی ایس ایس ایس )کے ڈائریکٹر عرفان انجینئر، سی ایس ایس ایس کی ڈپٹی ڈائریکٹر نیہا ڈھبادے اور مقامی شہری کنگ شک چکرورتی شامل ہیں۔ انہوں نے دونوں فرقوں ہندو اور مسلمان کے زخمیوں ، رہنماؤوں ، سوشل میڈیا پر پوسٹ ڈالنے کے ملزم سووک سرکار کے لواحقین، فساد میں ہلاک ہونے والے کارتک گھوش کے لواحقین ، پولیس افسران اور منتخب نمائندگان سے ملاقاتیں کیں۔

تحقیقاتی ٹیم نے پایا کہ اس تشدد کے باوجود گاؤں میں رہنے والے افراد دوسرے مذہب کے لوگوں کے تئیں دلوں میں نفرت نہیں رکھتے ہیں۔ امریش مشرا کا کہنا ہے،’’دونوں فرقے کے لوگ باہر کے لوگوں سے کوئی بھی بات کرتے وقت احتیاط برت رہے ہیں۔ کانگریس کے کاؤنسلر اویناش ناتھ نے ایک امن فوج کا قیام کیا ہے جو ان چند مسلم کنبوں کی گھر واپس کے لئے حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جنہوں نے فساد کے وقت اپنے گھروں کو چھوڑ دیاتھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سبھی لوگ اب گھر واپس آ چکے ہیں ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔