دو ہزار کے نوٹ کی بندش: حکومتی فیصلے سے ہر شعبہ کے لوگوں میں ناراضگی، حکومت سے پوچھے سلگتے سوالات
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت حکومت کے فیصلے کی وکالت کرنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے اور عام لوگ اس فیصلے پر انتہائی منفی اور ہلکے پھلکے تبصرے کر رہے ہیں، عوام اس بار سخت سوالات کر رہے ہیں!
مظفرنگر: آر بی آئی کی جانب سے 2000 کے نوٹ کو سرکولیشن سے ہٹائے جانے کے بعد عام لوگوں میں ہلچل نظر آ رہی ہے۔ جہاں ایک طرف تاجر اور امیر طبقہ اس فیصلے پر تنقید کر رہا ہے، وہیں دوسری طرف متوسط طبقہ پرسکون نظر آ رہا ہے اور اسے مضحکہ خیز فیصلہ قرار دے رہا ہے۔ دراصل، 2000 کے نوٹ واپس لینے کے فیصلے کے بعد اس بار صورتحال 2016 جیسی نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت حکومت کے فیصلے کی وکالت کرنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے اور عام لوگ اس فیصلے پر انتہائی منفی اور ہلکے پھلکے تبصرے کر رہے ہیں، عوام اس بار سخت سوالات کر رہے ہیں!
مظفر نگر کے ایک تاجر وکاس گوئل کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت فیصلہ لینے سے پہلے تحقیق نہیں کرتی۔ اگر آپ آج 2000 کا نوٹ بند کر رہے ہیں تو آپ کو یہ بتانا چاہئے کہ اسے 2016 میں کیوں متعارف کرایا گیا تھا؟ اس وقت مہینوں تک اے ٹی ایم سے صرف 2000 کے نوٹ نکلتے تھے۔ اے ٹی ایم ٹرے کا تو سائز تک تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس وقت جو آپ کہہ رہے تھے اور آج جو کہہ رہے ہیں اس میں بڑا فرق ہے۔ کالے دھن کے نام پر کی گئی نوٹ بندی نے کاروبار کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ ہمارے ضلع مظفرنگر میں ہی سینکڑوں کارخانے اور فیکٹریاں بند ہو گئیں۔ ہم خود مہینوں تک گاہکوں کا انتظار کرتے رہے۔ اس فیصلے سے ایک بات بالکل واضح ہے کہ یا تو حکومت کل غلط تھی یا آج غلط ہے اور اس تجربہ سے عام تاجر کو نقصان ہوا ہے۔
ایڈووکیٹ پرمود تیاگی اس فیصلے کو عجیب و غریب قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ حکومت کا آمرانہ فرمان ہے۔ 2016 میں 1000 کا نوٹ بند کرنے اور 2000 کا نوٹ استعمال کرنے کے فیصلے کو کوئی نہیں سمجھ سکا۔ عوام تب بھی پریشان تھی اور اب بھی پریشان ہوگی۔ اس نوٹ کو چلن میں لانے پر سرکاری خرچہ کیا گیا ہے۔ اس کی ذمہ داری کون اٹھائے گا! نوٹ بندی کے حوالے سے جتنے بھی دعوے کیے گئے وہ سچ نہیں نکلے۔ لگتا ہے حکومت پر سرمایہ داروں کا دباؤ ہے، یا پھر یہ فیصلہ 2024 کے انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے لیا گیا ہے۔
شاملی کے نوجوان کسان رہنما روی ملک کا کہنا ہے کہ ایک کسان کی حیثیت سے اس فیصلے سے ان کے طبقے پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے، حالانکہ اس فیصلے سے سرمایہ داروں، سیاست دانوں اور تاجروں پر اثر پڑے گا۔ کالے دھن سے متعلق ان طبقات میں بہت سی اسکیمیں ہوتی ہیں۔ سونا اب متوسط طبقے، غریبوں اور کسانوں کی پہنچ سے دور ہو جائے گا، یہ امیر طبقہ اب سونے کی بلیک مارکیٹنگ کرے گا۔ جس کی وجہ سے سونا مہنگا ہو سکتا ہے۔ نوٹ جتنا بڑا ہوگا، اتنی ہی زیادہ بدعنوانی ہوگی، یہ سب سمجھ رہے ہیں۔ یہ سمجھ سے باہر ہے کہ 1000 کے نوٹ کی بجائے 2000 کا نوٹ کیوں متعارف کرایا گیا۔
انیس منصوری کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی مہینوں سے 2000 کا نوٹ بازار میں چلتے نہیں دیکھا، یہ چلن سے تقریباً باہر ہے۔ آر بی آئی خود کہہ رہا ہے کہ 2019 سے انہوں نے اسے پرنٹ نہیں کیا ہے۔ اس نوٹ کے گردش میں آنے کے بعد کافی تشہیر کی گئی۔ یہاں تک کہ اس میں چپ نصب ہونے کا بھی دعویٰ کیا گیا! تب اسے ماسٹر اسٹروک قرار دیا گیا، کوئی بتائے کہ اب یہ کیسا اسٹروک ہے؟ عام آدمی کے پاس 2000 کے نوٹ نہیں ہیں، جو ہوں گے تو امیروں کے پاس ہوں گے، صرف وہی اس سے متاثر ہوں گے لیکن ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت کے لوگ زمینی تحقیقات کے بعد فیصلہ نہیں کرتے یا ان کی زمینی معلومات درست نہیں ہیں۔ نوٹ بندی کی لمبی قطاروں کو کوئی نہیں بھول سکا۔ جس مقصد کے لیے نوٹ بندی کی گئی تھی وہ ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ اس فیصلے سے یہی ثابت ہوتا ہے۔
سہارنپور کے ڈاکٹر وپن گرگ کا کہنا ہے کہ آر بی آئی نے یہ نہیں بتایا ہے کہ 2000 کے نوٹوں کے تبادلے کی آخری تاریخ ختم ہونے کے بعد ان کی کیا حیثیت ہوگی؟ کورونا کے بعد صحت کے مسائل سے متعلق خدشات کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے ہنگامی حالات کے لیے اپنے گھروں میں نقد رقم رکھی ہے۔ اب وہ ایک دن میں صرف 10 نوٹ بدل سکتے ہیں۔ اگر کسی خاندان نے شادی کے لیے پیسے بچائے ہیں تو انہیں بھی یہی مسئلہ درپیش ہوگا۔ بازار میں 2000 کا نوٹ چلانے میں بڑا مسئلہ پیش آتا ہے میوہ جات کے تاجر نیرج کمار کا کہنا کہ وہ ایک چھوٹا تاجر ہے، دکاندار آسانی سے چھوٹے نوٹ قبول کر لیتے ہیں لیکن 2000 کے نوٹ دیکھ کر اس میں ہچکچاہٹ پیدا ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ 2000 کا نوٹ بازار میں کافی دنوں سے نظر آنا بند ہو گیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔