دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ میں نماز پر پابندی، مسلم طبقہ میں غم و غصہ کی لہر

یوتھ کانگریس کے سابق جنرل سکریٹری کنور شہزاد نے آثارِ قدیمہ کو خط لکھ کر نماز کی اجازت کا مطالبہ کیا اور عآپ کے مسلم اراکین اسمبلی پر سوال بھی اٹھایا کہ مسلم ووٹ تو لے لیے لیکن ان کی آواز نہیں بنے۔

تصویر بذریعہ محمد تسلیم
تصویر بذریعہ محمد تسلیم
user

محمد تسلیم

نئی دہلی: راجدھانی دہلی کے آئی ٹی او پر واقع تاریخی اہمیت کا حامل فیروز شاہ کوٹلہ ایک مرتبہ پھر سرخیوں میں آگیا ہے۔ عالمی وبا کورونا وائرس کے پیش نظر تمام تاریخی عمارتوں، سیاحتی اور سیر و تفریح کے مقامات پر انتظامیہ کی جانب سے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ لیکن کورونا کی دوسر ی لہر کے بعد حالات ٹھیک ہونے پر دہلی کی بیشتر تاریخی عمارتوں اور درگاہوں کو عقیدت مندوں کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔

تصویر بذریعہ محمد تسلیم
تصویر بذریعہ محمد تسلیم

فیروز شاہ کوٹلہ تاریخی اور عقیدت دونوں ہی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں جمعرات اور جمعہ کے دن عقیدت مندوں کی کثیر تعداد منت مانگنے اور نماز ادا کرنے آتی ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر لوگ ویڈیو کے ذریعہ شکایت کر رہے تھے کہ یہاں نماز ادا کرنے نہیں دی جارہی ہے۔


جمعرات کے دن عقیدت مندوں کے چہرے اس وقت مایوس ہو گئے جب فیروز شاہ کوٹلہ میں داخلہ پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی اور نماز کے لیے بھی روک دیا گیا۔ ’قومی آواز‘ کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے عقیدت مندوں نے کہا کہ آج سے پہلے یہاں کبھی بھی ایسا موقع نہیں آیا کہ داخلہ اور نماز پر پابندی لگا دی گئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس جگہ سے لوگوں کو قلبی سکون ملتا ہے اور لوگوں کی مرادیں بھی پوری ہوتی ہیں۔

تصویر بذریعہ محمد تسلیم
تصویر بذریعہ محمد تسلیم

یوتھ کانگریس کے سابق جنرل سکریٹری کنور شہزاد نے نماز پر عائد پابندی پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس تاریخی مسجد میں برسوں سے نماز ادا کی جارہی ہے لیکن گزشتہ ماہ سے یہاں عقیدت مندوں کو روکا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیروز شاہ کوٹلہ برسوں سے آثارِ قدیمہ کے زیر انتظام آتا ہے، یہاں کی مسجد میں دہلی وقف بورڈ کے امام اور موذن نماز پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ اگر فیروز شاہ کوٹلہ میں کسی شخص کو نماز ادا کرنی ہو تو اس کو بیس روپے کا ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔

تصویر بذریعہ محمد تسلیم
تصویر بذریعہ محمد تسلیم

کنور شہزاد کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز جب سوشل میڈیا پر لوگوں نے نماز پر عائد پابندی پر ویڈیو وائرل کرنا شروع کیں، تو دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان نیند سے بیدار ہوئے اور عصر کی نماز فیروز شاہ کوٹلہ میں ادا کی اور بڑے فخر سے عوم الناس سے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب یہاں کسی بھی نمازی کو نماز پڑھنے سے روکا نہیں جا سکتا، اور نہ ہی نماز پڑھنے والوں سے ٹکٹ لیا جائے گا۔ تاہم آج، یعنی جمعرات کے روز میں نے ایک بار پھر فیروز شاہ کوٹلہ کا دورہ کیا اور دیکھا کہ یہاں داخلہ پر پابندی ہے، یہاں آئے عقیدت مند مایوس لوٹ رہے ہیں۔

تصویر بذریعہ محمد تسلیم
تصویر بذریعہ محمد تسلیم

کنور شہزاد کے مطابق انھوں نے گارڈ سے پوچھا کہ آخر داخلہ پر پابندی کیوں ہے، تو اس نے جواب دیا کہ دو دن کے لیے فیروز شاہ کوٹلہ بند ہے۔ کنور شہزاد نے مسلم قیادت پرسوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ دہلی میں پانچ مسلم ایم ایل اے ہیں، دہلی اقلیتی کمیشن ہے، لیکن کسی نے بھی ابھی تک آثارِ قدیمہ کو لیٹر نہیں سونپا کہ یہاں نماز کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ برسراقتدار عآپ حکومت کو ایک خاص طبقہ نے اپنا قیمتی ووٹ دے کر اس لئے کامیاب بنایا تھا کہ وہ مسلمانوں کی آواز بنے گی اور ان کے مسائل کو حل کر کرے گی، اس لئے نہیں کہ عہدیداران صرف آفس میں بیٹھ کر تماشائی بنے رہیں۔

تصویر بذریعہ محمد تسلیم
تصویر بذریعہ محمد تسلیم

کنور شہزاد کا کہنا ہے کہ جب ہمارے ساتھیوں نے اس بابت دہلی وقف بورڈ کے چیرمین امانت اللہ خان سے فون پر بات کی تو انہوں نے صاف طور پر کہہ دیا کہ خود ہی اس مسئلہ کا حل نکال لو۔ تاہم اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں نے صرف لوگوں کا ووٹ لے کر استعمال کیا ہے۔ کانگریس لیڈر نے کہا کہ ہم نے آج آثار قدیمہ کو لیٹر سونپا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ فیروز شاہ کوٹلہ میں نماز کی اجازت دی جائے اور جو ٹکٹ کی شکل میں رقم وصول کی جاتی ہے وہ نماز کے وقت نہ لی جائے۔ ساتھ ہی جمعرات اور جمعہ کے دن عقیدت مندوں کے لیے مفت داخلہ کا انتظام کیے جانے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ کنور شہزاد نے کہا کہ ہماری کوششوں کے بعد اب عام آدمی پارٹی کے لیڈران خواب خرگوش سے بیدار ہوئے ہیں لیکن دہلی کے عوام کے سامنے ان کا چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے۔

فیروز شاہ کوٹلہ کے دروزے بند ہونے سے پھول، اگر بتی، چراغ چادر فروخت کرنے والوں کا روزگار متاثر

فیروز شاہ کوٹلہ کے نزدیک ہر جمعرات اور جمعہ کو اگر بتی، چراغ، چادر فروخت کرنے والے عبدالنبی نے نمائندہ کو بتایا کہ میں یہاں گزشتہ 38 برس سے گلاب کے پھول و دیگر سامان فروخت کر رہا ہوں، لیکن عالمی وبا کورونا وائرس کے سبب دو سال سے روزگار نہیں ہے۔ اب زندگی کو دوبارہ پٹری پر لانے کے لیے ان لاک کا عمل شروع ہوگیا ہے، لیکن فیروز شاہ کوٹلہ پر اس طرح پابندی لگنے سے ہمارا کاروبار متاثر ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں پر عقیدت مند کثیر تعداد میں آتے ہیں اور ان کے ذریعہ سے سینکڑوں لوگوں کو روزی روٹی ملتی ہے۔

پھول فروخت کرنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ یہاں لوگوں کی منتیں پوری ہوتی ہیں اور جمعرات کے روز لوگوں کا ایک ہجوم نظر آتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر لوگوں کو اندر نہیں جانے دیا جائے گا تو ہماری روزی روٹی کیسے چلے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔