اب نہیں ٹوٹے گا استاد بسم اللہ خان کا گھر، وارانسی ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے لگائی روک
کمرشیل احاطہ بنانے کے لیے بسم اللہ خان کے گھر کو توڑا جا رہا تھا، جس پر وی ڈی اے نے روک لگا دی ہے۔ وی ڈی اے کے زونل افسر اور انجینئر سمیت دیگر افسران کی ایک ٹیم نے بسم اللہ خان کے گھر کا دورہ کیا تھا۔
شہنائی کے استاد بسم اللہ خان کا گھر ایک کمرشیل احاطہ بنانے کے لیے توڑا جا رہا تھا، لیکن اس پر اب وارانسی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (وی ڈی اے) نے روک لگا دی ہے۔ وی ڈی اے کے زونل افسر اور جونیئر انجینئر سمیت دیگر افسران کی ایک ٹیم نے گزشتہ ہفتہ ہادا سرائے علاقہ میں استاد کے گھر کا دورہ کیا تھا۔ ٹیم یہ پتہ چلنے کے بعد وہاں گئی تھی کہ ان کی فیملی کا ایک رکن معاشی فائدہ پانے کے لیے گھر کو توڑ رہا ہے۔
اس گھر کو 'قومی ثقافتی وراثت' کے طور پر محفوظ کرنے کا مطالبہ اٹھنے کے بعد گھر کو توڑنے کا کام روک دیا گیا تھا۔ وی ڈی اے کے ذریعہ کیے گئے جائزہ کی رپورٹ کے مطابق مشہور موسیقار کے پوتے اور مرحوم مہتاب حسین کے بیٹے محمد شفتین دوسری منزل کے کمرے کو توڑ رہے تھے۔ وہ اس وقت اسی گھر میں رہتے ہیں۔ یہ بھی پتہ چلا کہ فیملی کے اراکین کے درمیان ملکیت کا تنازعہ تھا۔
وی ڈی اے کے ایک سینئر افسر نے اس سلسلے میں کہا کہ "نجی ملکیت کا معاملہ ہونے کے سبب وی ڈی اے کی ٹیم نے زبانی طور سے اور نوٹس کے ذریعہ فیملی کے اراکین سے کہا ہے کہ اگر گھر مخدوشد حالت میں ہے تو اسے توڑنے سے پہلے میونسپل کارپوریشن سے اجازت لینی چاہیے۔ اس کے علاوہ کسی نئی تعمیر کو شروع کرنے سے پہلے انھیں وی ڈی اے سے نقشہ منظور کروانے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔"
حالانکہ گھر کو کمرشیل احاطہ کی شکل میں تیار کرنے کے فیصلہ پر بسم اللہ خان کے اہل خانہ کے کچھ اراکین کے ذریعہ بھی اعتراض ظاہر کیا گیا تھا۔ وہیں گھر کو توڑنے کی خبر پھیلتے ہی کئی تنظیموں نے احتجاجی مظاہرہ شروع کر دیا تھا۔ ساتھ ہی حکومت اور وزارت ثقافت سے اس گھر کو بچانے کے ساتھ ساتھ میوزیم کی شکل میں محفوظ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
مختلف تنظیموں کی جانب سے جاری ایک مشترکہ پریس بیان میں کہا گیا ہے کہ "اسے ایک شہنائی ٹریننگ سنٹر کی شکل میں تیار کیا جانا چاہیے اور فیملی کے اراکین کو کسی دوسری جگہ بسایا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی انھیں مالی مدد بھی دی جانی چاہیے۔" قابل ذکر ہے کہ بسم اللہ خان کی پالک بیٹی اور گلوکارہ سوما گھوش اور کانگریس لیڈر اجے رائے نے بھی حکومت سے اس سلسلے میں مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔