بہرائچ: ختم ہوا بھیڑیوں کا خوف! گروپ کے آخری آدم خور کو شکنجے میں آتے ہی دیہی لوگوں نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا
مہسی کے تماچ پور میں آدم خور بھیڑیا معصوم بچے کو نشانہ بنانے پہنچا تھا جہاں وہ ایک بکری پر حملہ کرنے کے دوران خود شکار ہو گیا۔ پولیس بھی اسے گروپ کا چھٹا بھیڑیا مان رہی ہے۔
اتر پردیش کے بہرائچ میں کئی مہینوں سے بھیڑیوں کے خوف کے سایے میں زندگی گزارنے پر مجبور لوگوں کو راحت کی خبر مل گئی ہے۔ ہفتہ کو مہسی علاقہ کے تماچ پور گاؤں میں گروپ کے آخری خونخوار لنگڑے بھیڑیے کا خاتمہ ہو گیا۔ جانکاری کے مطابق یہ آدم خور بھیڑیا معصوم بچے کو اپنا شکار بنانے کے لیے پہنچا تھا اسی دوران گاؤں والوں نے پیٹ پیٹ کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
آدم خور بھیڑیا معصوم بچے کو اپنا شکار بنانے کے لیے مہسی کے تماچ پور گاؤں پہنچا تھا، جس میں ناکامی ملنے پر اس خونخوار جانور نے ایک بکری پر حملہ کر دیا۔ جس کے بعد دیہی لوگوں نے پیٹ پیٹ کر اس کو انجام تک پہنچا دیا۔ اس سے پہلے 10 ستمبر کو مہسی میں پانچواں خونخوار بھیڑیا پکڑا گیا تھا، جس کے بعد چھٹے اور گروپ کے آخری بھیڑے کی بڑی زور و شور سے تلاش جاری تھی۔ اس طرح چھٹے بھیڑے کی موت کے ساتھ ہی علاقے کے لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے۔
ڈی ایف او اجیت سنگھ نے بتایا کہ گزشتہ رات ساڑھے آٹھ بجے انہیں اطلاع ملی کہ ایک جانور بکری کے بچے کو لے جا رہا تھا۔ جب وہ موقع پر پہنچے تو بکری اور بھیڑیا دونوں وہاں مرے پڑے تھے۔ حالانکہ اجیت سنگھ نے کہا کہ مارا گیا بھیڑیا اسی گروپ کا چھٹا بھیڑیا ہو سکتا ہے جسے محکمہ جنگلات کی ٹیم تلاش کر رہی ہے لیکن یہ آدم خور نہیں کہا جاسکتا کیونکہ پانچویں بھیڑیے کے پکڑے جانے کے بعد اس کے حملے کا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا۔ اس لیے چھٹے بھیڑیے کو آدم خور نہیں کہا جاسکتا۔
ڈی ایف او نے کہا کہ محکمہ جنگلات پورے معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔ فی الحال ہم اپنے محکمہ میں ایک نامعلوم میں واقعہ کی ایف آئی آر کراکر معاملہ رجسٹر کریں گے۔ محکمہ اسے اس گروپ کا چھٹا بھیڑیا مان کر چل رہا ہے، جو پانچ بھیڑیوں کے پکڑے جانے کے بعد اپنے گروپ میں آخری بچا تھا۔ بہرحال اس بھیڑے کی موت سے دیہی لوگوں نے بڑی راحت کی سانس لی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ بہرائچ میں بھیڑیوں کے گروپ کے حملوں میں اب تک تقریباً 10 لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں جبکہ 50 سے زائد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اپنے حملوں میں خونخوار بھیڑیوں نے خاص طور پر بچوں کو اپنا شکار بنانے کی کوشش کی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔