باغی -2: بیکار ایکشن اور کمزور کہانی کے باوجود ٹائیگر کی دھوم
ٹائیگر شراف اب کچھ فلمیں کر چکے ہیں اس لئے اب انہیں اداکاری سیکھ لینی چاہئے۔ انہیں واقعی اداکاری میں بہت نکھارلانے کی ضرورت ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہندوستانی فلم سازوں کو کچھ چیزوں کا احساس ہو جانا چاہئے۔ جیسے، فوج بھگوان نہیں ہے، ہر پولس محکمہ ہمیشہ بدعنوان نہیں ہوتا اور خدا را قومی پرچم کو تنہا چھوڑ دیا جائے۔
باغی-2 بنیادی طور پر ایک تھریلر فلم ہے جس میں ہیرو رونی ترنگے پرچم سے ضرورت سے زیادہ محبت کرتا ہے، اتنی کہ چڑچڑاہٹ پیدا ہونے لگتی ہے۔
اس نام نہاد تھریلر فلم کا اصل مقصد فوج بمقابلہ پولس کے تنازعہ کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہ نوک جھونک اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ ڈی آئی جی کو مداخلت کرکے یہ کہنا پڑتا ہے کہ، ’’پولیس کا کام انصاف کرنا ہے تو عدلیہ کیا کرتی ہے؟“
تین اسکرپٹ رائٹروں کے باوجود فلم میں کمزور ڈائیلاگ سننے کو ملتے ہیں۔ (اس سے پہلے اگر فلم میں تین ڈائیلاگ رائٹر ہوتے تھے تو ’مغل اعظم‘ جیسی کلاسک فلمیں بنتی تھیں) اس فلم کے مکالموں میں ’صفائی مہم‘ اور ’وکاس‘ کا بھی ذکر ہے (شاید حکومت کو خوش کرنے کے لئے لیکن یہ ڈائیلاگ مضحکہ خیز کی بجائے پھوہڑ نظر آتے ہیں)۔
فلم کے پلاٹ میں ہالی وڈ تھریلر اور ساؤتھ کی فلم کی جھلک نظر آتی ہے۔ ایک جرم ہوا ہے، متاثرہ بار بار یہ کہہ رہی ہے لیکن تمام ثبوت ٹھیک اس کے برعکس ہیں۔ اس میں محبت کی کہانی شامل کریں، اس سب سے ایک دلچسپ ڈرامہ بن سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس فلم میں ایسا نہیں ہے۔ حالانکہ فلم کی رفتار جب بھی سست پڑنے لگتی ہے تو دیپک ڈوبريال، رنديپ ہڈا اور منوج باجپئی کے کردار اس میں مصالحہ مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رندیپ ہڈا اپنے چھوٹے سے کردار ایل ایس ڈی میں کافی متاثر کرتے ہیں۔ منوج باجپئی بھی مایوس نہیں کرتے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فلم کے تقریبا ہر فریم میں ٹائیگر ہیں اور جب وہ اسکرین پر ہوتے ہیں تو صرف ان کا مضبوط جسم اور ایکشن دیکھنے کی امید کی جاتی ہے۔ اب وہ کچھ فلمیں کر چکے ہیں اس لئے وقت ہے کہ انہیں اداکاری سیکھ لینی چاہئے۔ ساتھ ہی ان کو اپنے تاثرات سے پاک چہرے پر کچھ تاثرات پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ٹائیگر شراف کو اپنی اداکاری کو واقعی بہت نکھارنے کی ضرورت ہے۔
دشا پاٹنی اپنی بچی کی تلاش والے بدحواس ماں کے کردار میں مایوس نہیں کرتیں۔ لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ آج کل کے اداکار اردو الفاظ کے کا صحیح تلفظ ادا نہیں کر پاتے۔ ویسے تو ہندی فلم انڈسٹری میں اردو کا مقام انگریزی نے چھین لیا ہے۔ لیکن چونکہ ہندی پر اردو کے اثر کو نظر انداز کر پانا ممکن نہیں ہے اس لئے ہندی کے اداکارون سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کم از کم تلفظ تو صحیح ادا کریں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ فلم کے ایکشن سین اچھے ہیں۔ لیکن ٹائیگر شراف کو ایسے بیوقوفی بھرے ایکشن اتنی سنجیدگی سے کرتے ہوئے دیکھ کر میرے ذہن میں یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈائریکٹر احمد خان کو اس حماقت پر اتنا بھروسہ ہے؟ یا پھر شاید وہ ٹائیگر شراف کے مؤثر بدن پر مائل ہو گئے کہ یہ ایکشن انہیں بے وقوفی محسوس نہیں ہوئے۔
اور پھر اس فلم میں جیکلین فرنانڈیس کا آئیٹم سانگ ’ایک ، دو ، تین…‘ بھی ہے۔ اس رقص پر جو بھی تنازعہ ہوا اسے درکنار کرکے دیکھیں تو بھی جیکلین نے بہت خراب رقص کیا ہے۔ یہ بات اس لئے بھی چبھتی ہے کہ اس گانے پر مادھوری دکشت نے بہترین رقص کیا تھا۔
لیکن اس سب کے باوجود ماننا پڑے گا کہ ٹائیگر نوجوان نسل میں کافی مقبول ہیں۔ فلم کی سست رفتار سے اکتائے ہوئے ناظرین بھی ٹائیگر کے لئے تالیاں بجا رہے تھے۔ لہذا یہ اہم ہو جاتا ہے کہ وہ اداکاری سیکھ لیں تاکہ وہ اپنی مقبولیت میں اضافہ کر سکیں اور اسے برقرار رکھ سکیں۔
آج کے اس دور میں جب کہ ہندی سنیما میں تمام موضوعات پر دلچسپ تجربات ہو رہے ہیں، یہی فلم کمرشیل تھریلر ہو کر بھی مایوس کرتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 01 Apr 2018, 9:05 PM