بدلاپور واقعہ: ملزم اکشے شندے کی انکاؤنٹر میں موت پر این سی پی نے اٹھائے سوالات

مہاراشٹر کے بدلاپور میں عصمت دری کے ملزم اکشے شندے کی انکاؤنٹر کے دوران ہلاکت پر نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے قومی ترجمان برج موہن سریواستو نے ردعمل ظاہر کیا ہے

<div class="paragraphs"><p>این سی پی لیڈر برج موہن / آئی اے این ایس</p></div>

این سی پی لیڈر برج موہن / آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

ممبئی: مہاراشٹر کے بدلاپور میں عصمت دری کے ملزم اکشے شندے کی انکاؤنٹر کے دوران ہلاکت پر نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے قومی ترجمان برج موہن سریواستو نے ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے انکاؤنٹر پر سوال اٹھاتے ہوئے پولیس کے غیرپیشہ وارانہ رویہ کی نشاندہی کی ہے۔

برج موہن نے کہا کہ بدلاپور میں دو نابالغ لڑکیوں کی عصمت دری کا ملزم، جو پولیس حراست میں تھا، اس کی پولیس کی گاڑی میں گولی لگنے سے موت ہو جاتی ہے۔ اس معاملہ پر ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لیا ہے۔ ہائی کورٹ نے سی آئی ڈی کو اس معاملہ کی تفتیش کا حکمت دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اگر پولیس کی جانب سے کوتاہی کی گئی ہے تو اس کا تفتیش کے بعد ہی انکشاف ہو سکے گا۔ میرے خیال سے پولیس حراست میں کسی ملزم کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آنا حساس معاملہ ہے۔ ہائی کورٹ کی جانب سے اس کا از خود نوٹ لینے کے بعد معاملہ کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے۔‘‘


انہوں نے کہا کہ پولیس ہمیشہ محتاط رہتی ہے کہ پولیس حراست میں اس طرح کا واقعہ پیش نہ آئے، اس لیے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اس معاملہ میں پولیس نے بیان دیا ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں گولی چلائی۔

خیال رہے کہ اکشے شندے کو پولیس نے دو بچیوں کے جنسی استحصال کے معاملہ میں گرفتار کیا تھا۔ اس واقعہ کے منظر عام پر آنے کے بعد مقامی لوگ پولیس اور انتظامیہ کے طریقہ کار پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے سخت کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مظاہرین نے اسکول میں پتھراؤ اور ریل روکو مہم بھی شروع کر دی تھی۔

ملزم اکشے شندے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کی دو شادیاں ہو چکی تھیں۔ پہلی بیوی نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور اس کے چار مہینے بعد اس نے دوسری شادی کر لی تھی۔ دریں اثنا، 16 اگست کو دو بچیوں کے جنسی استحصال معاملہ میں اکشے شندے کا نام آیا، جس کے بعد پولیس سے اسے پوکسو ایکٹ کے تحت گرفتار کیا تھا۔


بامبے ہائی کورٹ نے پولیس کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا، ’’پولیس کو تو کسی بھی صورت حال پر قابو پانے کے لئے باضابطہ طور پر تربیت دی جاتی ہے۔ ایسے حالات میں یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ آخر ملزم کے سر میں گولی کس طرح لگی؟ پولیس کو تربیت کے دوران یہ سکھایا جاتا ہے کہ ملزم کے کس حصہ پر گولی چلائی ہے۔ لہذا پولیس کو ملزم کے پیر یا ہاتھ پر گولی چلانی چاہئے تھی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔