بابری مسجد: تعمیر سے لے کر ویرانی، انہدام اور منتقلی تک!
بابری مسجد کو 1526 میں میر باقی نے تعمیر کرائی تھی، صدیوں سے اس کے وجود پر اکثریتی طبقہ کو اعتراض رہا۔ یہ تنازع کتنا قدیم ہے یہ اس بات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ 1856-57 میں ہندو-مسلم فساد بھڑک اٹھے تھے
بابری مسجد کا تنازعہ دور مغلیہ ،برطانوی حکومت اور پھر آزادی کے بعد بھی برقرار رہا۔ اب آخر کار 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے اس پر فیصلہ سنایا ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ متنازع زمین رام للّا کو دی جائے اور دوسرے ہندو فریق نرموہی اکھاڑا کو بھی اس میں حصہ داری دی جائے ۔ جبکہ مسجد کا دعوی سپریم کورٹ نے خارج کر دیا ۔ تاہم سنی وقف بورڈ کو مسجد بنانے کے لئے ایودھیا کے خاص مقام پر 5 ایکڑ زمین دینے کا حکومت کو حکم دیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ امن برقرار رکھنے کے لئے برطانوی حکومت نے مسجد کے احاطہ کو اندرونی اور بیرونی برآمدہ میں تقسیم کر کے 6 سے 7 فٹ اونچی دیوار کھڑی کروا دی تھی۔ اندرونی برآمدے کا استعمال مسلمان نماز پڑھنے کے لئے اور بیرونی برآمدے کا استعمال ہندو پوجا کے لئے کرنے لگے۔
ایودھیا میں 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا اور اسی کے ساتھ ملک بھر میں فساد بھڑک اٹھے ۔ اس کے بعد تمام مقدمات ہائی کورٹ کو سونپ دیئے گئے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے 30 نومبر 2010 کو فیصلہ میں 2.77 ایکڑ متنازع زمین کو تینوں فریقین سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑا اور رام للا میں تقسیم کرنے کا حکم دیا ، جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔
بابری مسجد کے انہدم سے قبل بی جے پی کے سابق سربراہ لال کرشن اڈوانی نے رام مندر کے لئے رتھ یاترا نکالی ۔ اڈوانی کی تحریک سے بی جے پی ایک قومی پارٹی میں تبدیل ہو گئی ۔ واضح رہے کہ 1984 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے محض 2 سیٹیں جیتی تھیں جبکہ 1991 میں ہونے والے عام انتخابات میں اسے 125 سیٹیں حاصل ہوئیں۔
فیصلہ آنے کے بعد ملک کے زیادہ لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے اور عدالت کے فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے ۔ تاہم مسلم فریقین نے اس بات پر اعتراض ظاہر کیا ہے کہ تمام ثبوت مسجد کے حق میں ہونے کے باوجود زمین مندر کو دے دی گئی۔
ویسے اس فیصلہ پر جن لوگوں کو تحفظات ہیں ان میں صرف مسلمان ہی شامل نہیں ہیں بلکہ غیر مسلم دانشوروں نے بھی اس پر سوال اٹھائے ہیں۔ سبکدوش جج جسٹس گنگولی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو مسلمانوں کی مذہبی آزادی کی پاسداری کرنی چاہیے تھی اور اگر اسی طرح فیصلے کیے جانے لگے تو ملک میں نہ جانے کتنے مندر ،مسجد اور چرچ ہیں جنہیں توڑنا پڑ جائے گا۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور قانون کی حکمرانی کے تحت فیصلہ کو ہر فریق کو منظور کرنا ہی ہوگا۔ اس فیصلہ پر نظر ثانی کی عرضی داخل کرنے کا حق فریقین کے پاس موجود ہے اور آنے والا وقت بتائے گا کہ عرضی داخل کی جاتی ہے یا نہیں۔
قابل ذکر ہے کہ سال 1992 میں اکثرتی طبقہ نے اپنی طاقت کے زعم میں پہلے مسجد کو منہدم کیا اور پھر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ، اس کے برعکس مسلمانوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ مسلمانوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی امیدوں کے خلاف ہونے کے باوجود اس کا احترام کیا اور اگر کسی کو مایوسی بھی ہوئی تو اس نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سے امن و امان کی صورت حال خراب ہو جائے
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 10 Nov 2019, 8:11 PM