بابری مسجد معاملہ: ’مولڈنگ آف ریلیف‘ کے حلف نامے داخل، ہندو فریقین کا سمجھوتے سے انکار!

بابری مسجد رام مندر تنازعہ معاملہ میں فریقین کی جانب سے سپریم کورٹ میں ’مولڈنگ آف ریلیف‘ کا حلف نامہ پیش کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ انہیں مقدمہ میں ہارنے کی صورت میں کیا راحت دی جا سکتی ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: ایودھیا کے بابری مسجد رام مندر ملکیت اراضی کے تنازعہ معاملہ میں ہندو اور مسلم فریقین نے ہفتہ کے روز سپریم کورٹ میں ’مولڈنگ آف ریلیف‘ کے تحت اپنا اپنا حلف نامہ دائر کر دیا۔ فریقین نے حلف نامہ دائر کر کے عدالت عظمیٰ کو اس امر سے آگاہ کرایا کہ انہیں مقدمہ گنوانے کی صورت میں کیا راحت دی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ عدالت عظمی نے بدھ کے روز اس معاملہ میں 40 دنوں کی طویل سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔

’مولڈنگ آف ریلیف‘ کیا ہے؟

مولڈنگ آف ریلیف کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک یا دو جماعتوں کو ملکیت حاصل ہو جاتی ہے تو باقیہ فریقین کے لئے کیا متبادل راحت فراہم کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ فریقین یہ مشورہ بھی دے سکتے ہیں کہ ان کے جیتنے کی صورت میں ہارنے والے فریق کو کیا راحت دی جائے۔


مسلم فریقین نے اس حوالہ سے مشترکہ طور پر دستاویزات کو سیل شدہ لفافوں میں پیش کیا ہے۔ بدھ کے روز ، سماعت کے آخری دن، مسلم فریقوں نے عدالت عظمیٰ کے سامنے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ بابری مسجد کی بحالی چاہتے ہیں کیونکہ یہ انہدام سے قبل ہی وہاں موجود تھی۔ مسلم فریق نے مولڈنگ آف ریلیف کے تحت سپریم کورٹ سے کیا کہا اس کا انکشاف نہیں ہو پایا ہے۔

ادھر ہندو فریقین میں سے نرموہی اکھاڑہ نے بھی مہر بند لفافے میں عدالت کو اپنی رائے پیش کی ہے، تاہم کچھ ہندو فریقین نے عدالت میں پیش کی گئی اپنی رائے کو عام کر دیا ہے۔ رام لالہ براجمان کی جانب سے کہا ہے کہ یہ سب کے مفاد میں ہوگا کہ ہندوؤں کو اس متنازعہ مقام کا قبضہ دیا جائے اور پوری زمین رام لالہ کے حوالے کردی جائے۔ انہوں نے کہا ہے کہ مسلمان اور سنی سنٹرل وقف بورڈ متنازعہ اراضی کا دعوی نہیں کر سکتے ۔ اس فریق نے نرموہی اکھاڑہ کے دعوے پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ اس پارٹی نے کہا ہے کہ عدالت ہندوؤں کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ سنائے۔


اس کے علاوہ ، شری رام جنم بھومی پرندھار کمیٹی نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ اراضی کا فیصلہ رام لالہ براجمان کے حق میں ہونا چاہئے۔ کمیٹی نے مجوزہ رام مندر کے انتظام کے لئے لائحہ عمل طے کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے مطالبہ کیا ہے کہ مرکزی حکومت کو ایک ٹرسٹ قائم کرنا چاہئے جس کے ممبران وہ تمام افراد رہیں جنہوں نے زمین پر اپنا دعوی پیش کیا ہے اس کے علاوہ، آل انڈیا ہندو مہاسبھا کا کہنا ہے کہ چونکہ مسلم فریق نے استدلال کیا ہے کہ بھگوان رام کی جائے پیدائش معلوم نہیں ہے، لہذا پورے ایودھیا کو ایک مقدس شہر قرار دیا جانا چاہئے۔

وہیں گوپال داس وشاراد، جنہوں نے یہ مقدمہ 16 جنوری 1950 کو درج کیا تھا، نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے میں کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس مقدمہ میں مسلمانوں کا کوئی حق نہیں ہے، لہذا کسی بھی زمین پر قبضہ کرنے والے کو اس کی ملکیت نہیں دی جانی چاہئے۔

ان تمام آراء کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ کہ ہندو فریق نہیں چاہتے کہ ایودھیا کی متنازعہ اراضی کو ہندوؤں اور مسلمانوں میں تقسیم کیا جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Oct 2019, 8:25 AM