بابری مسجد معاملہ پر سماعت شروع، کیس کثیر رکنی بنچ کو دینے کا مطالبہ

جمعیۃ علماء ہند کے وکیل نے طلاقِ ثلاثہ کا کیس پانچ رکنی بنچ کے سپرد کیے جانے کی دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایودھیا تنازعہ پر بھی ایسا ہی کیا جائے تاکہ جلد اور مناسب فیصلہ ہو۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

بابری مسجد ۔ رام مندر تنازعہ پر سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہو چکی ہے اور جمعیۃ علماء ہند کے وکیل نے مطالبہ کیا ہے کہ اس کیس کو کثیر رکنی بنچ کے حوالے کیا جائے تاکہ جلد اور مناسب فیصلہ ہو سکے۔ اس سلسلے میں وکیل نے طلاقِ ثلاثہ کا کیس کثیر رکنی بنچ کے سپرد کیے جانے کا حوالہ بھی پیش کیا اور کہا کہ اسی طرح بابری مسجد اور رام مندر مسئلہ کو بھی کثیر رکنی بنچ کے پاس بھیجا جائے۔

واضح رہے کہ طلاق ثلاثہ کیس میں فیصلہ پانچ رکنی بنچ نے سنایا تھا اور جمعیۃ علماء کے وکیل ایودھیا تنازعہ معاملہ میں بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔ اس وقت یہ کیس سپریم کورٹ کی سہ رکنی بنچ دیکھ رہی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ایودھیا تنازعہ پر ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 13 عرضیاں داخل کی گئی ہیں جس پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہو رہی ہے۔ ان عرضیوں میں 2010 میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے دیے گئے فیصلے کو چیلنج پیش کیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی مسلم فریقین کی جانب سے 1994 میں اسماعیل فاروقی کیس پر سپریم کورٹ کے دیے گئے فیصلے پر ریویو کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہےجس پر سماعت کیے جانے کا امکان ہے۔ 1994 میں اسماعیل فاروقی کیس میں سپریم کورٹ نے مسجد کو اسلام کا اٹوٹ حصہ نہیں مانا تھا۔ بتا دیں کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے متنازعہ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔

مارچ کے آخر میں اس ایشو پر سپریم کورٹ میں ہوئی سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کے وکیل نے متنازعہ مقام پر دوبارہ بابری مسجد تعمیر کرائے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔ جمعیۃ کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے 23 مارچ کو بابری مسجد تنازعہ کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کی سہ رکنی بنچ کے سامنے دلیل پیش کی تھی کہ ’’بابری مسجد کو شرپسندوں نے نہیں، بی جے پی کے لوگوں نے منہدم کرائی ہے۔ اس لیے اگر ہمیں ہندوستانی سیکولرزم پر ناز ہے تو مسجد اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کر دینا چاہیے کیونکہ بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو ایک منظم سازش کے تحت منہدم کی گئی تھی۔‘‘

مسجد، مندر، گرودوارہ، جین مندروغیرہ سب کی اپنی اپنی حیثیت قرار دیتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ایک بار مسجد کی تعمیر ہونے کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے مسجد ہوجاتی ہے، منہدم ہونے کے بعد بھی اس کی حیثیت ختم نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کو مسجد میں نمازپڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ کسی دوسری جگہ نماز ادانہیں کرسکتے سوائے شرعی مجبوری کے۔ لہٰذا اسماعیل فاروقی کے فیصلہ میں غلط کہا گیا ہے جس پر فاضل عدالت کونظرثانی کرنی چاہئے اور اس معاملے کی سماعت کثیر رکنی بنچ میں کرانی چاہئے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 Apr 2018, 4:43 PM