بابری مسجد معاملہ میں سازشوں پر پابندی لگے: ارشد مدنی

جارحانہ بیان بازی درحقیقت اکثریت کے مذہبی جذبات کو اکسانے کے لئے کی جارہی ہے جس کا فاضل عدالت کو ازخود اس کا نوٹس لینا چاہئے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

دہلی: اسی ہفتے بدھ سے بابری مسجد ملکیت تنازعہ کی سماعت ایک بار پھر سپریم کورٹ میں شروع ہونے جا رہے۔ اس کے حوالہ سے جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ ارشد مدنی نے یقین کا اظہار کیا ہے کہ تاریخی حقائق اور موجود دستاویزات کی بنیاد پر ہی بابری مسجد ملکیت تنازعہ میں عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔

صدر جمعیۃ مولانا سید ارشد مدنی نے اس موقع پر تنازعہ کے تعلق سے حالیہ دنوں کی بیان بازیوں پر گہری تشویش ظاہر کرتےہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی جارحانہ بیان بازی درحقیقت اکثریت کے مذہبی جذبات کو اکسانے کے لئے کی جارہی ہے جس کا فاضل عدالت کو ازخود اس کا نوٹس لینا چاہئے اور جو لوگ اس طرح کی بیان بازی کرکے ملک کا ماحول خراب کرنے کی سازشیں کررہے ہیں ان پر قدغن لگایا جانا چاہئے۔

اس بیچ بابری مسجد ملکیت معاملے کی اہم فریق جمعیۃ علماء ہند نے اپنی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی) کی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے یہ اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ چیف جسٹس دیپک مشراء کی سربراہی والی تین رکنی بینچ میں جسٹس عبدالنظیر اور جسٹس بھوشن شامل ہیں۔

جمعیۃ کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجو دھون اور ایڈوکیٹ راجو رام چندرن اپنے دلائل پیش کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس سے قبل کی سماعت پر چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشراء نے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کو ہدایت دی تھی کہ وہ ایگزیبیٹس A37 سے A40 اور 11,52/49,53,83,106کے ترجمے کراکر عدالت میں جمع کرائیں، عدالت کی ہدایت پر ترجمے کرانے کا عمل تقریباً مکمل ہوچکا ہے اور معاملے کی سماعت پر اسے عدالت میں پیش کردیا جائے گا۔ واضح ہوکہ عدالت نے دوسرے فریقین کوبھی حکم دیا تھا کہ سنسکرت اور دیگر زبانوں کی کتابوں کے ترجمے دوسرے فریقین اور عدالت کو دیئے جائیں۔ اگر فریقین کے دستاویزات مکمل ہوچکے ہیں تو اب اس معاملہ پر حتمی بحث شروع ہوسکتی ہے۔

مولانا سید ارشد مدنی نے اس بیچ کہا ہے کہ کسی کا مبینہ طور پر یہ کہنا کہ مندرنہیں بننے کی صورت میں ہندوستان سیریا(شام) بن جائے گا یا بعض پارٹیوں اور تنظیموں کے ذمہ داران کا زیر عدالت ملکیت کی زمین پر مندربنوانے کی بات کرنا افسوسناک اور تشویشناک ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ابھی تو معاملہ پر بحث تک شروع نہیں ہوئی ہے فیصلہ تو بحث اور دوسری قانونی کارروائیوں کے مکمل ہونے کے بعد ہی آئے گا۔ ایسے میں کسی بھی فیصلہ کن انداز سے کیا عدالت، ملک کے آئین اور قانون کی توہین نہیں ہوتی! انہوں نے کہا کہ’’ ملک کے ایک ذمہ دار شہری کے طور پر ہمیں عدلیہ پر مکمل یقین واعتماد ہے اور اسی بنیاد پر ہم ابتدا سے کہتے آئے ہیں کہ اس معاملہ میں عدالت کا جوبھی فیصلہ آئے گا وہ قابل قبول ہوگا ‘‘۔

واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند نے مولانا سیدارشد مدنی کی ہدایت پر 30 ستمبر2010 کے الہ آباد ہائی کورٹ کے اُس فیصلے کے خلاف سب سے پہلے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس میں عدالت نے ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔

خیال رہے کہ سابقہ صدی کے وسط میں حکومت اتر پردیش کی طرف سے بابری مسجد کو دفعہ 145 کے تحت اپنے قبضہ میں لے لئے جانے کے خلاف اس وقت جمعیۃ علماء اتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیرالدین فیض آبادی اور جنرل سکریٹری مولانا محمد قاسم شاہجاں پوری نے فیض آباد کی عدالت سے رجوع کیا تھا جس کا تصفیہ 30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے دیا گیا تھا۔ متذکرہ فیصلے کے خلاف جمعیۃ علماء نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی جس پر بدھ کو سماعت عمل میں آئے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Mar 2018, 6:47 PM