کرناٹک سے گراؤنڈ رپورٹ: بی جے پی کی کشتی لے ڈوبیں گے یدی یورپّا، پرکاش راج پر سب کی نظر

جنوب کی ریاستوں میں کرناٹک ہی ایسی ریاست ہے جہاں بی جے پی کا اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہاں بھی بی جے پی کی کشتی اس کے اپنے ہی سابق وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپّا ڈبوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

گزشتہ اسمبلی انتخاب میں بی جے پی نے سب سے زیادہ 104 سیٹیں تو جیتیں، لیکن تمام کوششوں کے باوجود 37 سیٹیں جیتنے والے جے ڈی ایس نے اس کے ساتھ حکومت بنانا قبول نہیں کیا۔ اس کی جگہ اس نے 80 سیٹیں جیتنے والی کانگریس کے ساتھ حکومت بنائی۔ گزشتہ بار جے ڈی ایس اور کانگریس دونوں نے الگ الگ لوک سبھا انتخاب لڑا تھا اور اسی لیے بی جے پی کی لاٹری کھل گئی تھی۔ اس بار دونوں پارٹیاں اتحاد قائم کر کے مضبوطی کے ساتھ انتخابی میدان میں اتری ہیں۔

کرناٹک سے گراؤنڈ رپورٹ: بی جے پی کی کشتی لے ڈوبیں گے یدی یورپّا، پرکاش راج پر سب کی نظر

موجودہ ماحول کو دیکھ کر بی جے پی میں فکر کا ماحول ہے۔ اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کو 36.34 فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ کانگریس کو 38.14 اور جے ڈی ایس کو 18.3 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ زیادہ ووٹ شیئر کے باوجود کانگریس کو کم سیٹیں ملی تھیں، لیکن دونوں پارٹیوں کا ووٹ شیئر جوڑ دیں تو یہ بی جے پی سے 20 فیصد زیادہ ہے۔ اس نظر سے دیکھا جائے تو زیادہ تر سیٹوں پر بی جے پی شکست کے لیے ہی انتخاب لڑ رہی ہے۔

بنگلورو یونیورسٹی کے شعبہ علم سیاسیات سے تعلق رکھنے والے ماہر سیاسیات پروفیسر پی ایس جے رامو کہتے ہیں کہ ’’کانگریس-جے ڈی ایس کارکنان کے درمیان زمین پر اچھا تال میل اس اتحاد کی جیت کا راستہ طے کرے گا۔ اس اتحاد کے لیے یہی چیلنج ہے۔ ویسے بی جے پی لیڈر بی ایس یدی یورپّا کی دقت یہ ہے کہ وہ جب بھی منھ کھول رہے ہیں، پارٹی کا نقصان ہی کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایچ ڈی کماراسوامی کی قیادت والی کانگریس-جے ڈی ایس حکومت کو گرانے کی جب بھی سازش تیار کی، وہ منکشف ہو گئی۔ ان کی حرکتوں کو عام لوگوں نے دیکھا اور یہی سمجھا کہ بی جے پی کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

اننت کمار بنیں گے فیکٹر، لیکن...

فائل فوٹو
فائل فوٹو

گزشتہ سال انتقال کر گئے مرکزی وزیر اننت کمار کی بیوی تیجسونی اننت کمار کو بی جے پی نے جنوب بنگلورو سے ٹکٹ کیوں نہیں دیا، یہ سمجھنا پارٹی کے سینئر لیڈروں کے لیے معمہ ہی ہے۔ اننت کمار 1991 سے یہاں کی نمائندگی کر رہے تھے اور لال کرشن اڈوانی کے بعد نریندر مودی کے وقت بھی وہ پارٹی میں جنوب کے اہم چہرے کے طور پر جانے جاتے تھے۔ یہاں پارٹی نے نوجوان آر ایس ایس لیڈر تیجسوی سوریہ کو امیدوار بنایا ہے۔ جے ڈی ایس کے ساتھ اتحاد کے تحت انتخاب لڑ رہی کانگریس نے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا رکن بی کے ہری پرساد کو یہاں سے امیدوار بنایا ہے۔

بی جے پی لیڈران تو کہہ رہے ہیں کہ یہ سیٹ پارٹی کے لیے محفوظ ہے کیونکہ گزشتہ لوک سبھا انتخاب میں اننت کمار کو 51.6 فیصد ووٹ ملے تھے جو کہ کانگریس اور جے ڈی ایس کے مشترکہ ووٹ شیئر سے بھی زیادہ تھا۔ لیکن بی جے پی لیڈران یہ بھول رہے ہیں کہ گزشتہ سال ہوئے اسمبلی انتخابات میں آٹھ میں سے پانچ سیٹیں بی جے پی نے جیت تو لیں لیکن سبھی سیٹوں میں ووٹوں کو ملانے پر اسے صرف 5401 کی سبقت حاصل ہوئی تھی۔ کانگریس کو امید ہے کہ تیجسونی کو ٹکٹ نہیں ملنے سے بی جے پی میں اندرونی رنجش کا فائدہ انھیں ضرور ملے گا۔ اقلیتوں کے ساتھ جے ڈی ایس کی وجہ سے ووکالیگا، او بی سی اور درج فہرست ذات اور قبائل کے ووٹ بھی اسے ملیں گے۔ ووکلیگا اور انتہائی پسماندہ طبقات کے ووٹر اس حلقہ میں تعداد کے نظریہ سے کافی زیادہ ہیں۔

پرکاش راج پر سب کی نظر، رقم کریں گے تاریخ!

سلمان خان کی فلم ’دبنگ 2‘ میں ویلن کا کردار نبھانے والے پرکاش راج بنگلورو سنٹرل سے آزاد امیدوار ہیں اور ان کا سلوگن ہے ’تھنک ماڈی، ووٹ ماڈی‘ یعنی سوچیں ضرور، ووٹ دیں ضرور۔ وہ ان چنندہ فلم اداکاروں میں ہیں جنھوں نے مودی کی پالیسیوں کے خلاف کھل کر بولنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کی۔ وہ بی جے پی کے سی. موہن اور کانگریس کے رضوان ارشد کا سامنا کر رہے ہیں۔ موہن نے پچھلا انتخاب جیتا تھا جب کہ ارشد اس وقت دوسرے نمبر پر تھے۔ ویسے موہن اور ارشد، دونوں ہی پرکاش راج کو اپنا حریف ماننے سے انکار کرتے ہیں۔

پرکاش چھوٹے اجلاس کرنے میں یقین کرتے ہیں۔ انھیں سڑک کنارے یا کہیں بھی دو تین سو لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ویسے پرکاش راج اگر جیتتے ہیں تو یہ کرناٹک کی سیاست کی نئی تاریخ ہوگی۔ اب تک ہوئے انتخابات میں صرف دو آزاد امیدواروں نے فتح حاصل کی ہے۔ پہلی بار 1957 میں سگندھی مروگپّا بیجاپور شمال سے اور پھر دس سال بعد تب کے میسور میں کنارا سے دنکر دیسائی نے فتح حاصل کی تھی۔ پرکاش راج کو یقین ہے کہ وہ اس بار فتحیاب ہوں گے۔

(کرناٹک سے وی وی لکشمن کی رپورٹ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔