آیوشمان بھارت: وہ 7 باتیں جو مودی حکومت عوام سے چھپانا چاہتی ہے

یہاں اس نئی صحت اسکیم سے متعلق 7 ایسی باتیں پیش کی جا رہی ہیں جن کے بارے میں ملک کو پتہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی، مرکزی وزارت برائے صحت اور بی جے پی یہ باتیں عوام کو بتانا بھی نہیں چاہتیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وشو دیپک

وزیر اعظم نریندر مودی نے ستمبر میں ’پردھان منتری جَن آروگیہ ابھیان‘ نام کی ایک بہت بڑی صحت اسکیم شروع کی۔ اس کو ’آیوشمان بھارت‘ یا ’نیشنل ہیلتھ پروٹیکشن مشن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انھوں نے اعلان کیا تھا کہ یہ ہیلتھ سے متعلق دنیا کی سب سے بڑی پیش قدمی ہے جو 28-27 یوروپی ممالک کی آبادی کے برابر ہندوستان کے لوگوں کے لیے مفید ہوگی۔

وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ ’’کناڈا، میکسیکو اور امریکہ کی آبادی کو ملا کر جتنے لوگ ہوتے ہیں، اس منصوبہ سے تقریباً اتنے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔‘‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ غریبوں اور ضرورت مندوں کو فائدہ پہنچانے کے معاملے میں یہ منصوبہ ’گیم چینجر‘ ثابت ہوگا۔ اس منصوبہ کا باضابطہ اعلان 25 ستمبر کو ہوا تھا جو پنڈت دین دیال اپادھیائے کا یوم پیدائش بھی ہے۔ لیکن کیا حکومت کی یہ نئی اسکیم واقعی ایسے ضرورت مندوں کو فائدہ پہنچا رہی ہے جو پہلے صحت سہولیات سے محروم تھے؟

وزیر اعظم کے بڑے بڑے دعووں کی روشنی میں صحت اسکیم کا سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ حکومت کی یہ پیش قدمی نہ تو دنیا کی سب سے بڑی صحت اسکیم ہے اور نہ ہی اس قدر اثرانداز ہے جتنا کہ حکومت کے ذریعہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ اس پالیسی کا ڈیزائن خامیوں سے بھرا ہوا ہے جس کی وجہ سے بدعنوانی کے راستے کھلتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ریاستوں کی آئینی حقوق کو کمزور کرتا ہے۔

یہاں اس نئی صحت اسکیم سے متعلق 7 ایسی باتیں پیش کی جا رہی ہیں جن کے بارے میں وزیر اعظم نریندر مودی، مرکزی وزارت برائے صحت اور بی جے پی عوام کو بتانا نہیں چاہتیں۔ وہ باتیں کچھ اس طرح ہیں...

1. سب سے بڑی صحت اسکیم!

پی ایم مودی ملک سے جو سب سے بڑی غلط بات کہتے آ رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ آیوشمان ہندوستان کی سب سے بڑی صحت اسکیم ہے اور اس کے تحت 10.74 کروڑ فیملی کو احاطے میں لیا جائے گا۔ انھیں پبلک اور پرائیویٹ ہیلتھ سیکٹر میں 5 لاکھ تک کی کیش لیس صحت خدمات مل سکیں گی۔ جب کہ ’قومی آواز‘ کو جو دستاویزات ملے ہیں ان کا تجزیہ کرنے پر یہ پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعظم نے اس منصوبہ کے تحت فائدہ حاصل کرنے والے لوگوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کی ہے۔

سچائی یہ ہے کہ کئی ریاستیں پہلے سے اپنی صحت اسکیمیں چلا رہی تھیں جو مجموعی طور پر اس سے زیادہ آبادی کو احاطے میں لے رہی ہیں جتنا آیوشمان بھارت دعویٰ کر رہی ہے۔ خود حکومت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آیوشمان بھارت کے اعلان کے دن تک 12 کروڑ سے زیادہ فیملی کو پہلے سے ہی کئی ریاستوں میں مفت صحت اسکیم کے تحت فائدہ مل رہا ہے۔

مثال کے طور پر مہاراشٹر حکومت کی ’مہاتما جیوتبا پھولے جن آروگیہ یوجنا‘ تقریباً 2.2 کروڑ کم آمدنی والے خاندانوں کو مفت معیاری صحت سہولیات دیتی ہے جب کہ آیوشمان بھارت کے تحت ریاست کے صرف 83 لاکھ خاندانوں کو فائدہ ملنے کی بات کہی گئی ہے۔ اسی طرح گوا کی صحت اسکیم سب کے لیے ہے اور اس کے تحت 2.25 لاکھ خاندانوں کو مفت ہیلتھ کور دیا جاتا ہے جب کہ آیوشمان بھارت میں ریاست کے تقریباً 37 ہزار خاندانوں کو فائدہ پہنچانے کی بات ہے۔

آیوشمان بھارت: وہ 7 باتیں جو مودی حکومت عوام سے چھپانا چاہتی ہے

2. بے ضابطگی کے الزام میں پھنسی جرمنی کی ایک کمپنی کو اسکیم میں شامل کیا گیا

رانچی کے ایک عوامی پروگرام میں اس منصوبہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے پی ایم مودی نے اپنی ’غریب پرور‘ والی شبیہ پیش کرنے کی کوشش کی اور سابقہ یو پی اے حکومت کو کئی سرکاری منصوبوں میں بدعنوانی کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا۔ انھوں نے کہا کہ غریبوں کے نام پر راج کرنے والی پہلے کی حکومتوں نے سرکاری خزانے کو سب سے زیادہ لوٹا ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ مودی حکومت نے جرمنی کی ایک تکنیکی مدد پہنچانے والی کمپنی جی آئی زیڈ کو ’آیوشمان بھارت‘ میں مشیر کے طور پر شامل کیا ہے۔ اس کمپنی پر بے ضابطگی کے الزامات عائد کیے جا چکے ہیں، اور یہ جانتے ہوئے بھی مودی حکومت نے اس کے ساتھ معاہدہ کیا۔ جی آئی زیڈ کے ہندوستان میں سربراہ نشانت جین کو آیوشمان بھارت کے ڈپٹی سی ای او دنیش اروڑا کا قریبی مانا جاتا ہے۔ ایک اہم ذرائع نے یہ بتایا کہ جین نے مبینہ طور پرلابی گروپوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے خاص طریقے سے منصوبے کا خاکہ تیار کیا۔ ذرائع نے نام نہ بتانے کی شرط پر یہ بھی کہا کہ ’’درحقیقت جین ذاتی طور پر اسکیم میں کافی شراکت داری رکھتے ہیں۔ یہ شراکت داری انھیں رشتہ داروں کے ذریعہ ملی ہے جو سافٹ ویئر، کارڈ وغیرہ کے وینڈر کے طور پر کام کرتے ہیں۔‘‘

اس کمپنی کو پھر سے وزارت صحت کے ذریعہ آیوشمان بھارت کی پالیسی قوانین بنانے کا ذمہ دینا مودی حکومت کے دعوے اور ارادے پر کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔

آیوشمان بھارت: وہ 7 باتیں جو مودی حکومت عوام سے چھپانا چاہتی ہے

3. سات سال پرانے اعداد و شمار پر مبنی

پی ایم مودی نے یہ دعویٰ کیا کہ غریبوں اور ضرورت مندوں کو دستیاب صحت سہولیات کے لحاظ سے یہ منصوبہ ’گیم چینجر‘ ہے۔ 10 کروڑ خاندانوں کو اس منصوبہ کے تحت احاطے میں لینے کا ان کا ارادہ ہے۔ افسوسناک یہ ہے کہ سماجی و اقتصادی اور ذات پر مبنی مردم شماری کے جن اعداد و شمار پر آیوشمان بھارت مبنی ہے، وہ سات سال قدیم ہے۔ اس کے ساتھ ہی ضرورت مند کے طور پر اہل ہونے کے لیے کتنے لوگ اعلان شدہ شرائط کو پورا کریں گے، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔

اس کے علاوہ اسکیم پر عمل سے متعلق طریقہ سے واقف ایک اعلیٰ ذرائع نے بتایا کہ مودی حکومت فائدہ حاصل کرنے والوں کی تعداد کم کرنے کی پرزور کوشش کر رہی ہے۔ اس کے پیچھے دلیل یہ ہے کہ فائدہ انہیں خاندانوں کو ملے گا جو اب بھی ضرورتمندوں کی فہرست میں آتے ہیں، جب کہ وہ سات سال پہلے شائع ہوا تھا۔ بقیہ بچے خاندانوں کو جو شرطیں پورا نہیں کرتے، انھیں اسکیم کا فائدہ نہیں ملے گا۔

4. شفافیت کا خطرہ

مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے منصوبہ کو نافذ کرنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے تیسری پارٹی حکمرانوں (ٹی پی اے) کی تقرری کی ہے۔ لیکن کئی لوگوں کو لگتا ہے کہ ایسا قصداً برسراقتدار پارٹی کے قریبی لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا گیا ہے۔ صحت سے متعلق سہولیات کے دعوے کو آگے بڑھانے کے لیے ٹی پی اے کو پیسے ملتے ہیں، اگر وہ دھوکہ دہی والے ہوئے تو بھی انھیں پیسے ملیں گے۔ ذرائع کے مطابق بی جے پی لیڈروں اور وزراء کے رشتہ داروں کو مبینہ طور پر ٹی پی اے بنایا گیا ہے۔

5. کم از کم جوابدہی

پی ایم مودی نے رانچی میں اس بات کو بہت فخر سے کہا تھا کہ ملک کے کم از کم 13 ہزار اسپتالوں میں آیوشمان بھارت منصوبہ نافذ کرنے کے لیے ساتھ میں لیا گیا ہے۔ لیکن ماہرین کو لگتا ہے کہ صحت خدمات کا طریقہ اہم ہے، تعداد نہیں۔ آیوشمان بھارت کے ٹینڈر دستاویزوں کے مطالعے سے یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ کسی اسپتال کو پینل سے باہر کرنا اتنا مشکل ہے کہ سنگین بدعنوانی کے الزامات کے باوجود انھیں پینل سے نکالنا مشکل ہوگا۔ دھوکہ دہی کو پانچ درجات میں تقسیم کیا گیا ہے اور کسی اسپتال کو باہر نہیں کیا جا سکتا، اگر کسی ایک درجہ میں تین بار دھوکہ دہی نہ کی گئی ہو۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ اسپتال الگ الگ درجات میں بے ضابطگیاں کرتے رہ سکتے ہیں اور انھیں سماعت کے لیے کسی کمیٹی کے سپرد کیے جانے سے پہلے کم از کم 10 مواقع ملیں گے۔

اس کے علاوہ اس منصوبہ میں اسپتالوں کو آٹومیٹک ڈھنگ سے پینل میں ڈالنے کا بھی انتظام ہے جنھیں سابقہ صحت اسکیم یعنی قومی صحت بیمہ منصوبہ میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ بڑے پیمانے پر معلوم بات ہے کہ اس منصوبہ کے تحت پینل میں ڈالے گئے کئی اسپتالوں کے پاس بہت خراب نظام تھا اور وہ پینل میں ڈالے جانے کے اہل بھی نہیں تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے اسپتالوں کو جا کر دیکھئے اور تجزیہ کیے بغیر آٹومیٹک طور پر شامل کیا جانا خطرناک ہوگا اور زمین پر منصوبہ کو نافذ کرنے میں اس سے مسئلہ پیدا ہوگا۔

6. نقد منافع اچھی سوچ نہیں

آیوشمان بھارت کے تحت سرکاری اسپتال میں کی جانے والی سرجری کو فروغ دینے کا منصوبہ ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ سرکاری اسپتال کے ڈاکٹروں کو سرجری کے بدلے نقد منافع دینے کی سوچ میں کچھ مسئلہ ہے۔ غیر اخلاقی طبی سرگرمیوں پر تنبیہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ایسے معاملوں میں بھی سرجری ہونے لگے گی جہاں اس کی ضرورت نہیں ہے۔

7. پارٹی کے خزانے میں جاتا پبلک فنڈ

اسکیم کے بارے میں جانکاری بڑھانے کے لیے ٹول فری نمبر (14555) کو لانچ کرتے ہوئے پی ایم مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ آیوشمان بھارت سبھی مستقبل کی صحت اسکیموں کے لیے ایک ماڈل ہوگا۔

لیکن تجزیہ نگاروں کو کچھ اور ہی لگتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مودی حکومت نے دہائیوں پرانے انشورنس ماڈل کو درکنار کرتے ہوئے ٹرسٹ ماڈل کو اس لیے قبول کیا کیونکہ ان کا ایک ہی ارادہ تھا کہ پارٹی کے خزانے میں پبلک فنڈ کو بھیجا جائے۔ چونکہ ٹرسٹ ماڈل میں کسی دعوے کو نہ تو خارج کیا جا سکے گا اور نہ ہی اسے مناسب ٹھہرایا جا سکے گا، تو اس سے بدعنوانی کے لیے راستے کھل جائیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Nov 2018, 2:09 PM