اتراکھنڈ عدلیہ میں جج بننے والی گاؤں کی تین بیٹیاں عائشہ، گلستاں اور جہاں آرا
اتراکھنڈ جیوڈیشیل سروس کے برآمد نتائج میں ریاست کو 17 نئے سول جج (جونیئر ڈویژن) ملے ہیں۔ ان میں سے 4 مسلم طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں تین لڑکیاں ہیں۔
22 دسمبر کو اتراکھنڈ جیوڈیشیل سروس کے آئے نتائج میں تین مسلم لڑکیاں جج بن گئی ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ تینوں ہی لڑکیاں دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں سے دو لڑکیاں رڑکی کے پاس شاہ پور اور بڈھی گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں جب کہ تیسری لڑکی ہریدوار کے سرائے گاؤں کی ہے۔ لیکن تینوں کا ضلع ہریدوار ہی ہے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ تینوں ہی کے گاؤں میں ہائی اسکول سطح کا کوئی بھی اسکول نہیں ہے۔ ان میں سے ایک لڑکی کا نام عائشہ فرحین ہے، دوسری کا نام گلستاں انجم ہے، اور تیسری لڑکی جو جج بنی ہے اس کا نام جہاں آرا انصاری ہے۔
22 دسمبر کو اتراکھنڈ جیوڈیشیل سروس کے آئے نتائج میں ریاست کو 17 نئے سول جج (جونیئر ڈویژن) ملے ہیں۔ ان میں سے 4 مسلم طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں تین لڑکیاں ہیں۔ اس سے قبل اتر پردیش جیوڈیشیل سروس کے ریزلٹ میں 18 اور راجستھان جیوڈیشیل سروس میں 5 مسلم لڑکیاں جج بنی تھیں۔ آئیے جانتے ہیں اس مرتبہ جج بننے والی تین مسلم بیٹیوں اور ان کے جدوجہد کے بارے میں۔
عائشہ فرحین: دیسی لڑکی کا بڑا کمال ہے یہ کامیابی
رڑکی سے پانچ کلو میٹر کی دوری پر شاہ پور نام والے اس گاؤں میں عائشہ کا گھر ہے۔ والد صرف پانچویں تک پڑھے ہیں اور ماں کبھی اسکول ہی نہیں گئی۔ چار ایکڑ زمین ہے اور چار ہی بچے ہیں۔ گاؤں میں پانچویں درجہ سے آگے کا اسکول نہیں ہے۔ خاندان میں 8 وکیل ہیں، لیکن وکالت پڑھنے والی عائشہ پہلی لڑکی ہے۔ 9ویں رینک پانے والی عائشہ کی کامیابی اس لیے بھی خاص ہے کیونکہ انھوں نے صرف 6 مہینے کی تیاری میں یہ مقام حاصل کیا ہے۔ یہ ان کی پہلی کوشش تھی۔ وہ گاؤں کی ایک دیسی لڑکی ہے جس نے لگاتار اپنی ماں کا گھر کے کام میں ہاتھ بٹایا۔ عائشہ فرحین ہنستے ہوئے کہتی ہیں ’’مجھے تو یہ سب دعاؤں کا اثر لگتا ہے۔ مگر میں یہ ضرور کہہ سکتی ہوں کہ میں آریجنل ہوں، مجھ میں کہیں کوئی بناوٹی بات نہیں ہے۔ میں بالکل صاف ستھری ہوں، آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں سنجیدہ ہوں۔ لوگوں نے میرے باہر پڑھنے جانے کو لے کر تبصرہ کیا۔ چونکہ حق اور حلال میرے خون میں ہے، اس لیے میں نے سب برداشت کیا۔ اللہ نے میرے ساتھ انصاف کیا ہے۔ اب میں بے حد پروفیشنل طریقے سے قانون کی کتاب سے اپنا کام کروں گی۔‘‘ فرحین مزید کہتی ہے کہ ’’میں آج سے پہلے کبھی کسی جج سے نہیں ملی۔ میری زندگی میں بس دو چیزوں کی اہمیت تھی، میری کتابیں اور میری فیملی، بس۔ مجھے لگتا ہے ہمیں لڑکیوں کو پڑھنے کا آگے بڑھنے کا خوب موقع دینا چاہیے۔ کسی کے پاس بھی ناکامیابی کا کوئی بہانہ نہیں ہوتا ہے۔‘‘
عائشہ فرحین کے والد کا نام شرافت علی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’بیٹی نے کمال کر دیا ہے۔ میں پانچویں تک ہی پڑھ پایا، بس یہ طے کیا تھا کہ اس کو پڑھنے دوں گا، آگے بڑھنے دوں گا۔ اس کی ماں تو بس قرآن ہی پڑھی ہے۔ گاؤں میں انگریزی کا اسکول بھی نہیں ہے۔ آگے پڑھنے کے کئے پاس کے گاؤں میں بھیجا، اس سے اور آگے پڑھنے رڑکی بھیجا، اور بھی آگے پڑھنے الٰہ آباد بھیجا اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا راستہ اس نے خود بنایا۔ سب سے بڑی بیٹی ہے میری۔ ایسا کمال کیا ہے کہ ڈنکا بج گیا ہے۔ میرے اللہ نے مجھ پر مہر کر دی ہے۔ کل تک بیٹی کو پڑھانے پر منھ بنانے والوں کے منھ پر آج اللہ نے تالے لگا دیئے ہیں۔‘‘
اتراکھنڈ ریاست میں آنے والا ضلع رڑکی کے سب سے پسماندہ گاؤں میں سے ایک شاہ پور ہے۔ گاؤں میں سب سے زیادہ پڑھی لکھی لڑکی بھی عائشہ ہی ہے۔ اس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کیا ہے۔ حیرت انگیز یہ ہے کہ عائشہ نے صرف 6 مہینے کی تیاری میں اتراکھنڈ کی جیوڈیشیل سروس میں سول جج کا امتحان پاس کیا ہے۔ اس سال لاک ڈاؤن کے سبب وہ یہ تیاری بھی مستقل طور پر نہیں کر سکیں۔ اس دوران بڑی بیٹی ہونے کی تمام ذمہ داری اس نے نبھائی ہے۔ کبھی پڑھائی کا بہانہ لے کر گھر کے کام سے ہاتھ نہیں کھینچا ہے۔ روٹی بنائی ہے، صفائی کی ہے، پونچھا لگایا ہے، کپڑے دھوئے ہیں اور اپنی ماں کے ساتھ گیہوں صاف کروائے ہیں۔
گلستاں انجم: ابو کو ضد تھی بیٹیاں کو کچھ بنانے کی
بڈھی گاؤں کے سماجی کارکن حسین احمد کی سب سے چھوٹی بیٹی گلستاں انجم نے بھی اتراکھنڈ جیوڈیشیل سروس سول جج (جونیئر ڈویژن) کا امتحان پاس کر لیا ہے۔ منگل کو ریزلٹ جاری ہونے کے بعد گلستاں جج بن گئی اور فیملی میں خوشی کا ماحول چھا گیا۔ حسین احمد کہتے ہیں کہ ان کی بیٹی نے فیملی اور انھیں فخر کا موقع دیا ہے۔ وہ مسلم طبقہ میں بیٹیوں کو بہتر تعلیم کی وکالت کرتے ہیں۔ گلستاں کا کہنا ہے کہ انٹر کے بعد سے ہی پاپا کا خواب تھا کہ وہ جج بنے۔ تبھی سے عزم کر لیا کہ ان کے خواب کو پورا کر سماج میں استحصال زدہ لوگوں کے حق میں انصاف پر مبنی فیصلے کرنے ہیں۔ گلستاں نے ڈی اے وی سے 2016 میں گولڈ میڈل کے ساتھ ایل ایل بی کی۔ اس کے بعد انھوں نے کلیمنٹ ٹاؤن میں ریٹائرڈ جج وی کے ماہیشوری کے یہاں پر کوچنگ کی۔ 2017 میں پہلی کوشش میں انھوں نے انٹرویو تک کا سفر طے کیا۔ کامیابی نہیں ملنے پر ہمت نہیں ہاری۔ اب جیوڈیشیل سروس میں سلیکٹ ہونے پر اپنی کامیابی کا سہرا اپنے اہل خانہ اور استادوں کو دیتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ ان کی عدالت میں جو بھی متاثرہ انصاف کے لیے آئے گا، اسے انصاف ملے گا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ بیٹیوں کو تعلیم دلانا بے حد ضروری ہے۔ اگر بیٹیاں خواندہ ہوں گی تو سماج محفوظ ہوگا۔ کامیاب ہونے کے لیے لگاتار محنت بے حد ضروری ہے، ناکامیوں کا ڈٹ کر سامنا کرنے سے کامیابی ضرور ملتی ہے۔ گلستاں کے بھائی اسد 2015 بیچ کے پی سی ایس افسر ہریدوار میں جی ایس ٹی محکمہ میں تعینات ہیں۔ بہن زینت ایم اے میں گولڈ میڈلسٹ ہے۔ وہ رڑکی میں ایک اسکول چلاتی ہے۔
جہاں آرا انصاری: بغیر کوچنگ گھر پر رہ کر پڑھنے والی لڑکی بن گئی جج
جہاں آرا انصاری کے ایک بھائی ٹریول کا کام دیکھتے ہیں اور دوسرے ٹھیکیداری کرتے ہیں۔ جہاں آرا نے پہلے لکسر سے ہائی اسکول کیا، پھر جوالاپور سے انٹرمیڈیٹ کی پڑھائی مکمل کی اور دہرہ دون سے ایل ایل بی کی۔ اس کے بعد یہیں سے صحافت میں ڈپلوما کیا۔ پہلے وہ صحافت میں کیریر بنانا چاہتی تھیں، لیکن اتر پردیش، راجستھان اور اتراکھنڈ میں خاص کر مسلم لڑکیوں کو جج بنتے دیکھا تو گھر پر رہ کر ہی تیاری کی اور اب وہ خود جج بن گئی۔ جہاں آرا کے والد شہادت حسین زراعت کے شعبہ سے جڑے ہوئے ہیں۔
یہ اتفاق ہے کہ اس مرتبہ جج بننے والی اتراکھنڈ کی تینوں لڑکیوں کے والد کسان ہیں اور کسی کے بھی والدین بہت زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ مائیں تو اسکول بھی نہیں گئیں۔ اس بات کا تذکرہ جب شہادت حسین کے سامنے کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ تو آپ درست کہہ رہے ہیں، لیکن ہم ہمیشہ ایسے نہیں رہ سکتے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ صرف پڑھائی ہی ہماری تقدیر بدل سکتی ہے۔ یہاں دہرہ دون میں شاہجہاں انصاری نام والی پولس افسر رہی ہیں، ان کے بارے میں سنتے رہتے تھے۔ انھیں دیکھ کر لگتا تھا کہ ہماری بیٹی بھی پڑھ لکھ کر کچھ کر سکتی ہے، تو میں نے خواب دیکھ لیا اور میری بیٹی نے اسے پورا بھی کر دیا۔ اتفاق یہ ہے کہ میری بیٹی کا نام جہاں آرا ہے۔‘‘
جہاں آرا انصاری ایک عام گاؤں کی لڑکی ہے۔ وہ سوشل میڈیا سے دور رہی ہے اور بغیر کوچنگ کے جج بننے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں آرا کہتی ہیں کہ ’’مجھے تو بس پڑھائی ہی کرنی تھی، مجھ پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ کسی طرح کا کوئی معاشی مسئلہ بھی نہیں تھا۔ بھائیوں کا مکمل تعاون حاصل تھا۔ ایک بات تھی کہ پورے گھر کی امید مجھ پر ہی تھی۔ مجھے کبھی کسی کام سے روکا نہیں گیا۔ پوری فیملی نے میری حوصلہ افزائی کی۔ مجھے میرے سبجیکٹ کے انتخاب کی بھی آزادی تھی۔ میں نے خود فیصلہ کیا تھا کہ مجھے صحافت کرنی چاہیے، اور پھر خود ہی یہ طے کیا کہ وکالت کی پڑھائی پڑھوں گی، اور اب خود ہی طے کیا کہ جیوڈیشیل سروس میں جاؤں گی۔ پورا گھر میری ہاں میں ہاں کہتا تھا۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے ایک مثالی فیملی ملی جس نے مجھے ہمیشہ اپنی حمایت دی۔ میری امی کہتی تھیں کہ بیٹا اگر تم کچھ بن گئی تو بہت سے بند دروازے کھل جائیں گے۔ اب مجھے امید ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Dec 2020, 8:10 PM