واجب علی: میوات سے رکن اسمبلی منتخب ہونے والا آسٹریلیا کا کامیاب تاجر

خصوصی گفتگو کے دوران واجب علی نے کہا، ’’ایک جانب آسٹریلیا ہے جہاں ترقی ہی ترقی ہے اور دوسری طرف علاقہ میوات ہے جسے آپ پسماندہ ترین کہہ سکتے ہیں، مجھے اس کی بہتری کے لئے کام کرنا ہے۔‘‘

تصویر: واجب علی سے فیس بک پیج سے
تصویر: واجب علی سے فیس بک پیج سے
user

آس محمد کیف

آسٹریلوی شہر میلبورن کے کرکٹ میدان پر 19 مارچ 2015 کو ہندوستان اوربنگلہ دیش کے درمیان عالمی کپ کا کورٹر فائنل میچ کھیلا گیا ۔ میچ ہندوستان نے جیتا اور اس کے بعد میدان پر صرف اور صرف ہندوستانی نظر آ رہے تھے۔ اسٹیڈیم کے باہر ایک عمارت میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی خوب خاطر تواضع ہوئی اور جشن منایا گیا۔ بعد میں جب ہندوستانیوں کو معلوم چلا کہ عمارت ایک ہندوستانی کی ہے اور اسے آئی سی سی نے کرایہ پر لیا ہے تو وہ خوشی سے جھوم اٹھے۔

میلبورن میدان کے باہر والی شاندار عمارت کے مالک اب راجستھان کے بھرت پور ضلع کی نگر اسمبلی سیٹ سے رکن اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ واجب علی 35 سال کے ہیں اور انہوں نے دوسری مرتبہ انتخابات میں قسمت آزمائی تھی۔ پہلی مرتبہ وہ ہار گئے تھے لیکن اس مرتبہ بی ایس پی کے ٹکٹ پر انہوں نے زبردست جیت درج کی ہے۔

واجب علی غیر مقیم ہندوستانی (این آر آئی) ہیں اور آسٹریلیا کے ایک کامیاب تاجر ہیں۔ آسٹریلیا میں ان کے دو بھائی اور رہتے ہیں۔ ان کے بھائی انتاج خان اور سرتاج خان وہاں تعلیم کے شعبہ میں بڑے نام ہیں۔ ان بھائیوں نے آسٹریلیا میں کالجز اور ایک اسکول قائم کیا ہے جن میں ہزاروں بچے زیر تعلیم ہیں۔ واجب علی کے بھائیوں کو آسٹریلیا کی مستقل شہریت حاصل ہو چکی ہے ، ان کے بھائی میلبور ن شہر کے کونسلر ہیں اور شہر کاسب سے مہنگا 9.5 ملین ڈالر کی لاگت والا بنگلہ اسی خاندان کا ہے۔

میو طبقہ سے تعلق رکھنے والا یہ خاندان راجستھان کی نگر اسمبلی سیٹ سے آتا ہے ، جو میوات علاقہ میں شامل ہے۔ یہ خاندان تقریباً 30 سال پہلے آسٹریلیا چلا گیا تھا۔ واجب علی نے سڈنی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ 2014 میں یہ ہندوستان لوٹ آئے تھے اور اس وقت انہوں نے این ایل پی کے ٹلٹ پر چناؤ لڑا اور 25 ہزار ووٹ حاصل کئے لیکن اس مرتبہ انہوں نے بی ایس پی کا دامن تھام لیا اور 26 ہزار ووٹوں سے جیت کر رکن اسمبلی منتخب ہو گئے۔

خصوصی گفتگو کے دوران واجب علی نے کہا، ’’ایک جانب آسٹریلیا ہے جہاں ترقی ہی ترقی ہے اور دوسری طرف علاقہ میوات ہے جسے آپ پسماندہ ترین کہہ سکتے ہیں، مجھے اس کی بہتری کے لئے کام کرنا ہے۔‘‘

واجب علی نے 2018 کے اپنے انتخابی حلف نامہ 14 کروڑ کی ملکیت ہونے کا ذکر کیا ہے۔ ان کی کامیابی میوات کے نوجوانوں کو مثالی نظر آتی ہے۔ میوات کا یہ علاقہ دہلی سے تقریباً 200 کلومیٹر دور ہے اور یہاں پہنچے کے بعد راجستھان اور ہریانہ کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ ہریانہ اور راجستھان دونوں ریاستوں کے میو واجب علی کو امید کی کرن سمجھ رہے ہیں۔

مسلم میو طبقہ کی آبادی لاکھوں میں ہے اور یہ برادری تین ریاستوں (ہریانہ، راجستھان، یو پی) میں پھیلی ہوئی ہے۔ واجب علی واحد میو رکن اسمبلی نہیں ہے لیکن ان سے امیدیں زیادہ ہیں۔ میوات کے رہائشی عمران میواتی کا کہنا ہے ’’واجب علی کے خاندان کی ترقی سے لوگ خاصے متاثر ہیں۔ لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ واجب علی اور ان کے بھائیوں نے میوات کے پسماندہ علاقہ سے نکل کر آسٹریلیا کی سرزمین پر کامیابی حاصل کی ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ انہیں خود سے زیادہ جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ دراصل میوات کے ہزاروں نوجوان آج واجب ہی کی طرح بننا چاہتے ہیں۔‘‘

میوات میں تعلیم کی صورت حال زیادہ بہتر نہیں ہے اور خواتین کی تعلیم کی شرح تو حد سے زیادہ خراب ہے۔ پینے کا صاف پانی ملنا بھی ایک مسئلہ ہے، کچھ گاؤں میں بجلی نہیں ہے۔ میوات کے زیادہ تر لوگ میلبورن کا صحیح تلفج بھی ادا نہیں کر پاتے ، ہاں کرکٹ کی وجہ سے آسٹریلیا کے بارے میں سب جانتے ہیں۔

واجب کہتے ہیں، ’’میں اپنے علاقہ کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ آسٹریلیا میں ہمارا کاروبار کافی اچھا ہے۔ ہم وہاں کوالٹی ایجوکیشن پر کام کر رہے ہیں۔ اب جبکہ میں رکن اسمبلی منتخب ہو چکا ہوں تو میری پوری توجہ میوات کے بچوں کو بہتر تعلیم دلانے کی رہے گی، ہم یہاں کالج شروع کرنے جا رہے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ نوجوان زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں اور علاقہ کا نام روشن کریں۔

بی ایس پی کے راجستھان انچارج اور جنرل سکریٹری دھرم ویر اشوک نے کہا ،’’واجب علی نوجوانوں کے لئے ایک بڑی امید ہیں۔ وہ تعلیم یافتہ اور بردبار ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ ان کے پاس ایک نظریہ ہے ۔ کامیاب تاجر ہونے کے باوجود انہوں نے غریبوں اور محروموں کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا ، یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ ‘‘

واجب علی راجستھان میں بی ایس پی کے 6 ارکان اسمبلی میں سے ایک ہیں اور ان کی پارٹی نے کانگریس کی حمایت کا اعلان کیا ہے، واجب علی کے وزار کونس میں شامل ہونے کا بھی امکان ہے ۔ نگر اسمبلی حلقہ انتخاب سے وابستہ رضوان خان (36) کہتے ہیں، ’’نگر کے نوجوانوں نے واجب علی کو پر زور حمایت دی اور انہوں نے 40 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں۔ پچھلی بار وہ انیتا سنگھ سے ہار گئے تھے اگر کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے ووٹ بھی اس میں جوڑ دئے جائیں تو کل ووٹوں کا 80 فیصد حصہ ہو جاتا ہے۔ واجب علی نے سماجوادی پارٹی کے نیم سنگھ فوجدار کو 26 ہزار ووٹوں سے ہرایا جبکہ بی جے پی کی امیدوار انیتا سنگھ تیسرے مقام پر رہی۔

آسٹریلیا میں پرورش پانے کے باوجود واجب ٹھیٹ میواتی زبان میں بات کر سکتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ’’میں جمہوریت کو ایک بڑی طاقت سمجھتا ہوں۔ میلبورن اور نگر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ میں نگر کو ہی میلبورن بنانا چاہتا ہوں۔ ‘‘

واجب علی بین الاقوامی دیہی کونسل کے رکن بھی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ آسٹریلیا میں جو کسانوں کو فائدہ ملتا ہے اسے بھرت پور کے کسانوں کو بھی دلوانے کی کوشش کریں۔‘‘

واجب کے بھائی سرتاج خان انتخابات کے دوران واجب کی تشہیر کاری کا کام دیکھ رہے تھے۔ چہار سو سے ملی حمایت پر سرتاج خان کہتے ہیں، ’’ہم نے آسٹریلیا میں رہ کر کافی ترقی کی اور نام بھی کمایا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی ہیں وہ اپنے ملک ہندوستان کی وجہ سے ہیں۔ واجب کو میوات کے لئے کچھ کرنا تھا اور اب اسے موقع بھی مل گیا ہے۔ اسے اب خود کو ثابت کر کے دکھانا ہوگا۔‘‘

انتخابی تشہیر کے دوران واجب مقامی لوگوں کی طرح ہی نظر آنا چاہتے تھے اور اکثر لوگ انہیں پھول مالاؤں سے لاد دیتے تھے۔ واجب کہتے ہیں، ’’جو پھول لوگوں نے مجھ پر نچھاور کئے ہیں وہ مجھ پر قرض کی طرح ہیں ، جسے لوگوں کی خدمت کر کے مجھے اتارنا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Dec 2018, 7:09 PM