مظفرنگر فسادات کے سلسلہ میں سزایافتہ بی جے پی لیڈر وکرم سنگھ سینی کی اسمبلی کی رکنیت منسوخ

سال 2013 میں مظفر نگر میں برپا ہونے والے فسادات کے سلسلہ میں قصوروار قرار دئے گئے بی جے پی لیڈڑ وکرم سنگھ سینی کی اسمبلی کی رکنیت روز منسوخ کر دی گئی

وکرم سینی (تصویر بذریعہ آس محمد کیف)
وکرم سینی (تصویر بذریعہ آس محمد کیف)
user

قومی آواز بیورو

مظفرنگر: سال 2013 میں مظفر نگر میں برپا ہونے والے فسادات کے سلسلہ میں قصوروار قرار دئے گئے بی جے پی لیڈڑ وکرم سنگھ سینی کی اسمبلی کی رکنیت روز منسوخ کر دی گئی۔ خیال رہے کہ کوال کے رہائشی اور کھتولی سیٹ سے رکن اسمبلی وکرم سینی کو مظفر نگر ایم پی-ایم ایل اے کورٹ نے 11 اکتوبر کو 2 سال قید کی سزا سنا سنائی تھی۔

وکرم سینی کو یہ سزا کوال میں لوگوں کو مشتعل مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے اور سرکاری کام میں رخنہ پہنچانے کے لیے سنائی گئی ہے۔ رکن اسمبلی کے ساتھ 12 دیگر لوگوں کو بھی سزا سنائی گئی ہے۔ 2 سال کی اس سزا کے علاوہ ان سبھی کو 10-10 ہزار روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔


مظفر نگر کی عدالت سے سزا سنائے جانے کے بعد جمعہ کے روز اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے وکرم سینی کی رکنیت منسوخ کر دی گئی۔ اسمبلی سیکریٹریٹ نے کھتولی سیٹ کے حوالہ سے محکمہ انصاف کی رپورٹ آنے کے بعد ہی فیصلہ لیا جائے گا اور اس کے بعد oi سیٹ کو خالی قرار دیا جائے گا۔

اسمبلی سیکریٹریٹ کا کہنا ہے کہ رکنیت دو یا اس سے زیادہ کی سزا سنائے جانے پر خود بخود ہی ختم ہو جاتی ہے۔ محکمہ انصاف سے رائے طلب کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم دو سال کی سزا پر نافذ ہوتا ہے یا دو سال سے زیادہ پر ہی نافذ ہوگا۔ وکرم سینی وہی لیڈر ہیں جو لگاتار متنازعہ بیانات دیتے رہے ہیں۔ وہ کھتولی اسمبلی سے دوسری بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ حالانکہ سزا سنائے جانے کے کچھ وقت بعد ہی جب وکرم سینی نے جرمانہ ادا کر دیا تو اس کے بعد عدالت نے انھیں ضمانت دے دی۔


غورطلب ہے کہ جس وقت مظفرنگر فسادات ہوئے تھے تو وکرم سنگھ سینی اس کوال گاؤں کے پردھان تھے جہاں سے فرقہ وارانہ تشدد کی شروعات ہوئی تھی۔ مختلف برادریوں سے تعلق رکھنے والے تین افراد کے قتل کے بعد مظفرنگر ضلع میں تشدد کی آگ بھڑگ گئی تھی اور مہینے بھر تک جھڑپیں ہوی رہی تھیں۔

بی جے پی لیڈر وکرم سنگھ سینی نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسپیشل ایم پی/ایم ایل اے کورٹ سے دو سال کی سزا کے سلسلے میں ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ نچلی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔