شہریت ترمیم بل پر آسام کا ماحول کشیدہ، فرقہ وارانہ رنگ دے رہی بی جے پی
این آر سی یعنی شہریت ترمیم بل کے سبب آسام کے لوگوں میں ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے لیکن بی جے پی لیڈر اس پورے معاملے کو اپنی فرقہ پرست تقریروں سے غلط رنگ دینے کی کوششوں میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔
نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) اور شہریت ترمیم بل کو لے کر بی جے پی اور آر ایس ایس فیملی کے لوگ خود بھی کشمکش کی حالت میں نظر آ رہے ہیں۔ مرکزی حکومت نے این آر سی کا کام لوک سبھا انتخاب کے نام پر کچھ دن ملتوی رکھنے کی سپریم کورٹ سے جس طرح گزارش کی ہے، اس سے تو یہی لگتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس تعلق سے بی جے پی لیڈران فرقہ وارانہ تقسیم کی لائن گہری رکھ کر تشدد کا ماحول بنانا چاہتے ہیں تاکہ انتخابات میں اس کا غلط فائدہ اٹھا سکیں۔ وزراء اور اراکین اسمبلی کے ارادے تو یہی لگتے ہیں، حالانکہ اس کا لوگوں پر اثر بھی زوردار طریقے سے ہو رہا ہے اور لگتا نہیں کہ بی جے پی کے غلط ارادے پورے ہو پائیں گے۔
ریاست کے وزیر مالیات ہیمنت بیسوا سرما نے ایک مقامی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں کہہ دیا کہ شہریت ترمیم کو اختیار کرنے سے آسام جناح کے اراستے پر چلنے سے بچ جائے گا۔ انھوں نے یہ تک کہا کہ باگھبر اسمبلی حلقہ میں 90 ہزار بنگلہ دیشی مسلمان رہتے ہیں اور ان میں سے 95 فیصد کے نام این آر سی میں شامل ہو چکے ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ ترون گوگوئی نے فوراً اس کی مخالفت کی اور کہا کہ بی جے پی آسام میں لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازش کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری آئین نے جمہوریت کو اختیار کیا ہے اور مذہب کی بنیاد پر غیر ملکی مہاجرین کو شہریت دینے کی پالیسی اختیار کر بی جے پی آئین سے کھلواڑ کر رہی ہے۔
آسام اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر دیوبرت سیکیا نے ڈی جی پی سے بسوا سرما کے خلاف فرقہ وارانہ تقریر کی بنیاد پر مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جس وقت پوری ریاست میں مظاہرے ہو رہے ہیں، بسوا سرما فرقہ واریت پر مبنی تقریر دے کر سماج کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیکیا نے یہ بھی کہا کہ مشہور دانشور ڈاکٹر ہیرین گوہائی کے ایک عام بیان پر اگر آسام پولس ان کے خلاف حکومت سے بغاوت کا مقدمہ درج کر سکتی ہے تو اسے فرقہ وارانہ زہر اگل رہے بسوا سرما کے خلاف بھی تعزیرات ہند کی دفعہ 153 (اے) اور 295 (اے) کے تحت مقدمہ درج کرنا چاہیے۔
برپیٹا ضلع یوتھ کانگریس نے تو بسوا سرما کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کروائی ہے۔ سرما نے اسی ٹاک شو میں یہ بھی کہا کہ معین باڑی سیشن کو مقامی مسلمانوں کے دباؤ میں سربھوگ منتقل کرنا پڑا۔ برہمپتر سے ہونے والے اراضی کٹاؤ کی وجہ سے سیشن کا ایک حصہ ختم ہو گیا تھا اور اسی لیے اسے سربھوگ منتقل کرنا پڑا۔
اس دعویٰ کی مخالفت میں برپیٹا ضلع کے تحت برہمپتر اور بیکی ندی کے کنارے واقع معین باڑی میں لوگوں نے جمع ہو کر مظاہرہ تو کیا ہی، سیشن کے ناظم کے چھوٹے بھائی رنجیت ادھیکاری نے کہا کہ اراضی کٹاؤ کے سبب سیشن کو منتقل کرنا پڑا ہے۔ اس سے پہلے ایک مسلمان اینل دیوانی نے ہی سیشن کے لیے اپنی زمین دینے کی پیشکش کی تھی۔ کسی بھی مسلم شخص نے سیشن کی زمین پر تجاوزات نہیں کیا ہے۔
صرف ہیمنت بسوا ہی زہر اگل رہے ہوں، ایسا نہیں ہے۔ اس سے قبل ہوجائی کے بی جے پی رکن اسمبلی شلادتیہ دیو بھی ایک مقامی ٹی وی چینل کے پروگرام میں کہہ چکے ہیں کہ آسام کے 11 مسلم اکثریتی اضلاع میں این آر سی تیار کرنے کا کام بنگلہ دیشی جہادیوں نے کیا ہے اور ان لوگوں نے ایک کروڑ بنگلہ دیشی مسلمانوں کو بھارت کی شہریت دے دی ہے۔ دیو یہیں نہیں رکے۔ اس بیان پر تنازعہ ہونے پر انھوں نے کہہ دیا کہ آسام میں جتنے مسلمان رہتے ہیں ان میں سے 98 فیصد بنگلہ دیشی ہیں۔
بل کے حق اور خلاف میں نکلنے والے جلوسوں کو بھڑکانے کی بھی ہر ممکن کوشش جاری ہے۔ سلچر واقع آسام یونیورسٹی کے آسامیا زبان طلبا نے جب شہریت ترمیم بل کے خلاف جلوس نکالا تو اسی دن بنگلہ زبان طلبا نے اسمبلی کی حمایت میں جلوس نکالا۔
محض ماحول گرمانے کی نیت سے سلچر کے بی جے پی لیڈر پردیپ دَت رائے نے کہہ دیا کہ اگر آسامیا طلبا اس طرح کی سیاست کریں گے تو یونیورسٹی میں انھیں گھسنے نہیں دی اجائے گا۔ اس پر جب کافی ناراضگی دیکھنے کو ملی تو 13 جنوری کو ریاستی بی جے پی صدر رنجیت داس نے رائے کو پارٹی سے معطل کر دیا۔
(آسام سے دنکر کمار کی رپورٹ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 08 Feb 2019, 9:09 AM