آسام: این آر سی فائنل ڈرافٹ میں 40 لاکھ لوگ غیر قانونی قرار

ریاستی این آر سی کے کو آرڈینیٹر نے کہا کہ وہ سبھی لوگ جن کا نام پہلے ڈرافٹ میں تھا لیکن فائنل ڈرافٹ میں نہیں ہے انھیں نجی طور پر ایک خط دیا جائے گا تاکہ وہ دوبارہ شہریت ثابت کر سکیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

آسام میں این آر سی کا فائنل ڈرافٹ جاری کر دیا گیا ہے جس میں 3.29 کروڑ لوگوں میں سے 2 کروڑ 89 لاکھ 83 ہزار 677 لوگ این آر سی میں شامل کرنے کے اہل پائے گئے ہیں۔ پریس سے خطاب کرتے ہوئے ریاستی این آر سی کے کو آرڈینیٹر نے کہا کہ ’’وہ سبھی لوگ جن کا نام پہلے ڈرافٹ میں تھا، لیکن فائنل ڈرافٹ میں نہیں ہے انھیں ذاتی طور پر ایک خط دیا جائے گا تاکہ وہ ایک بار پھر اپنی شہریت کو ثابت کر سکیں۔‘‘

شہریت کے لیے 32991384 لوگوں نے درخواست کی تھی جس میں 4007707 لوگوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ ایسے ماحول میں اب تقریباً 40 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بے گھر ہونا پڑے گا۔ جنھیں غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، بتایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائے۔

اس درمیان این آر سی مسودے پر پوری ریاست میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ احتیاطاً سی آر پی ایف کی 220 کمپنیوں کو ریاست میں تعینات کیا گیا ہے۔

آخر کیا ہے این آر سی؟

نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) میں جن لوگوں کے نام نہیں ہوں گے انھیں غیر قانونی قرار دیاجائے گا۔ اس میں ان ہندوستانی شہریوں کے ناموں کو شامل کیا گیا ہے جو 25 مارچ 1971 سے پہلے آسام میں رہ رہے ہیں۔ اس کے بعد ریاست میں پہنچنے والوں کو بنگلہ دیش واپس بھیج دیا جائے گا۔

کئی سیاسی پارٹیاں اور مسلم تنظیمیں این آر سی کی مخالفت کر رہی ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ حکومت اقلیتوں کو ملک سے باہر نکالنے کے لیے اس کا سہارا لے رہی ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے حکم اور اس کی نگرانی میں این آر سی کو اَپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل 31 دسمبر 2017 کو جاری پہلی فہرست میں 3.29 کروڑ درخواست دہندگان میں 1.9 کروڑ لوگوں کے نام ہی شامل تھے۔

اس طرح سمجھیں این آر سی کی اہمیت...

دراصل ان مبینہ اطلاعات اور خبروں کے بعد کہ بنگلہ دیش سے آئے لوگ بڑی تعداد میں آسام میں مقیم ہیں، حکومت نے ریاست کے لوگوں کا ایک رجسٹر بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مہم کو دنیا کا سب سے بڑا این آر سی مہم تصور کیا جا رہا ہے۔ اس مہم کو 3 ڈی یعنی ڈٹیکٹ، ڈیلیٹ اور ڈپورٹ کے اصول پر چلایا گیا ہے۔ یعنی سب سے پہلے غیر قانونی طریقے سے مقیم لوگوں کی پہچان کی جائے گی پھر ان کا نام سرکاری دستاویزوں سے ہٹا کر انھیں واپس ان کے ملک بھیجا جائے گا۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ آسام میں تقریباً 50 لاکھ بنگلہ دیشی غیر قانونی طریقے سے مقیم ہیں جس کی وجہ سے وہاں سماجی اور اقتصادی مسائل کھڑے ہوتے رہے ہیں۔

گزشتہ تقریباً 37 سالوں سے آسام میں دراندازوں کو واپس بھیجنے کی مہم چل رہی ہے۔ 1971 میں بنگلہ دیش کی جدوجہد آزادی کے دوران بہت سے لوگ ہجرت کر ہندوستانی سرحد میں آ گئے تھے اور یہیں بس گئے۔ اس کے سبب مقامی لوگوں اور دراندازوں میں کئی بار پُرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔

مبینہ دراندازوں کو واپس بھیجنے کی تحریک سب سے پہلے 1979 میں آل آسام اسٹوڈنٹ یونین اور آسام گن پریشد نے شروع کی تھی۔ یہ تحریک پُرتشدد رہی اور تقریباً 6 سال تک چلتی رہی ۔ اس تشدد میں سینکڑوں لوگوں کی ہلاکت بھی ہوئی تھی۔

تشدد روکنے کے لیے 1985 میں مرکزی حکومت اور تحریک چلانے والوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا اس میں طے ہوا تھا کہ 1951 سے 1971 کے درمیان ہندوستان آئے لوگوں کو شہریت دی جائے گی اور 1971 کے بعد آئے لوگوں کو واپس بھیجا جائے گا۔ لیکن بعد میں یہ معاہدہ ٹوٹ گیا تھا۔ بعد میں اس ایشو پر سیاسی اور سماجی کشیدگی بڑھنے لگی۔ آخر کار 2005 میں مرکزی حکومت نے 2005 میں این آر سی اَپ ڈیٹ کرنے کا معاہدہ کیا۔ لیکن سست رفتاری کی وجہ سے معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا۔

گزشتہ تین سال کے دوران آسام کے تقریباً 3.29 کروڑ لوگوں نے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے تقریباً 6.5 کروڑ دستاویز جمع کرائے۔ شہریت ثابت کرنے کے لیے لوگوں سے 14 طرح کے الگ الگ دستاویز مانگے گئے تھے۔

آخر کار گزشتہ سال یعنی 2017 میں سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے پہلے ہی نصف رات کو آسام حکومت نے این آر سی کی پہلی فہرست جنوری میں جاری کر دی۔ فہرست جاری ہوتے ہی این آر سی سنٹرل پر لوگوں کی بھیڑ امنڈ پڑی۔ لیکن اس فہرست میں بہت سارے لوگوں کے نام نہیں تھے۔ ایسے لوگوں میں کچھ اے آئی یو ڈی ایف لیڈر بدرالدین اجمل جیسے مشہور لوگ بھی شامل تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔