آسام: مسلمانوں کا قائم کردہ میوزیم سیل، 2 افراد زیرِ حراست
آسام پولیس نے منگل کے روز آسام میاں (اسومیا) پریشد کے صدر مظہر علی سمیت 2 افراد کو حراست میں لے لیا۔ قبل ازیں، مسلمانوں کے قائم کردہ پرائیویٹ میاں میوزیم کو گولپاڑہ ضلع انتظامیہ نے سیل کر دیا تھا۔
گوہاٹی: آسام پولیس نے منگل کے روز آسام میاں (اسومیا) پریشد کے صدر مظہر علی سمیت 2 افراد کو حراست میں لے لیا۔ قبل ازیں، مسلمانوں کے قائم کردہ پرائیویٹ میاں میوزیم کو گولپاڑہ ضلع انتظامیہ نے سیل کر دیا تھا۔ اس میوزیم کو حکام نے اس وقت سیل کر دیا جب وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے اس کی فنڈنگ پر سوال اٹھایا۔
علی اور عبدالمتین کو لکھی پور سے گرفتار کر کے پوچھ گچھ کے لیے گولپاڑہ صدر تھانے لایا گیا۔ آسام کے اسپیشل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس جی پی سنگھ نے ایک ٹوئٹ میں کہا ’’گولپاڑہ کے مہر علی اور دھوبری کے عبد المتین کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اے کیو آئی ایس/ اے بی ٹی کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں مزید تفتیش اور پوچھ گچھ کی جائے گی۔‘‘
خیال رہے کہ آسام پولیس نے رواں سال اپریل سے اب تک انصار اللہ بنگلہ ٹیم (اے بی ٹی) سے مبینہ روابط رکھنے والے تقریباً 40 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ اے بی ٹی برصغیر پاک و ہند میں القاعدہ سے منسلک دہشت گرد گروپ (اے کیو آئی ایس) کا حمایت یافتہ ماڈیول ہے۔
میاں میوزیم کا افتتاح اتوار کو مغربی آسام کے ضلع گولپاڑہ کے علاقے دپکربھیتا میں کیا گیا۔ میاں لفظ کا استعمال مقامی بنگالی یا بنگالی نژاد مسلمانوں کے لیے کیا جاتا ہے، جو 1890 کی دہائی کے آخر سے آسام میں دریائے برہم پترا کے کنارے آباد ہو گئے تھے۔ انگریزوں نے انہیں تجارتی کھیتی باڑی اور دیگر کام کرنے کی اجازت دی ہے۔
میاں میوزمم کے دروازے پر لکھی پور ریونیو بورڈ کا نوٹس چسپاں کیا گیا ہے۔ جس میں لکھا گیا ہے کہ ڈی سی کی ہدایت کے مطابق گاؤں دپکربھیتا کے مہر علی ولد سومیش علی کی یہ پی ایم اے وائی- جی مکان اگلے احکامات تک بند کیا جاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پولیس میاں میوزیم کے قیام کے لیے فنڈز کے ذرائع کی تحقیقات شروع کرے گی۔
سرما نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’جن لوگوں نے میاں میوزیم قائم کیا ہے، انہیں حکومت کے سوالات کے جواب دینے ہوں گے، ایسا نہ کرنے پر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔" وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ 'میاں کویتا'، 'میاں اسکول' کا عروج سنگین چیلنج پیدا کر رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔