چائلڈ میرج کے خلاف آسام حکومت کی کارروائی جاری، پجاری اور قاضی سمیت اب تک 2200 سے زائد افراد گرفتار
آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما چائلڈ میرج کے خلاف سخت کارروائی کو لے کر پرعزم نظر آ رہے ہیں اور ہوئی گرفتاریوں سے متعلق وہ خود سوشل میڈیا پر جانکاری دے رہے ہیں۔
آسام میں چائلڈ میرج یعنی کم عمری میں شادی کے خلاف پولیس کی کارروائی آج دوسرے دن بھی دیکھنے کو ملی۔ ریاست کی بی جے پی حکومت کے ذریعہ سخت ہدایت کے بعد 3 فروری کی صبح چائلڈ میرج کے خلاف درج معاملوں میں گرفتاری کا عمل شروع ہوا تھا اور تازہ ترین خبروں کے مطابق اب تک 2200 سے زائد افراد کی گرفتاری عمل میں آ چکی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ گرفتار شدگان میں ایسے پجاری اور قاضی بھی شامل ہیں جنھوں نے شادی کو حتمی شکل دینے میں اہم کردار نبھایا۔
آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما چائلڈ میرج کے خلاف سخت کارروائی کو لے کر پرعزم نظر آ رہے ہیں اور ہوئی گرفتاریوں سے متعلق وہ خود سوشل میڈیا پر جانکاری دے رہے ہیں۔ 3 فروری کو بھی انھوں نے ایک ٹوئٹ میں 1800 سے زیادہ گرفتاریوں کی اطلاع دی تھی، اور آج بھی انھوں نے ہی ٹوئٹ کر بتایا ہے کہ گرفتاریوں کی تعداد اب تک 2200 کو پار کر چکی ہے۔ اپنے ٹوئٹ میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’کم عمری کی شادی کے خلاف کریک ڈاؤن مسلسل دوسرے روز بھی جاری ہے۔ اب تک 2200 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس سماجی جرم کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی۔‘‘
دوسری طرف اس کارروائی کے خلاف آوازیں بھی بلند ہونے لگی ہیں۔ خصوصاً مسلم تنظیمیں گرفتاری کے عمل کو بی جے پی کی مسلم دشمنی سے تعبیر کر رہی ہیں۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے آج اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’آسام حکومت مسلمانوں کی مخالفت میں کام کر رہی ہے۔ جن کی شادی ہو چکی ہے ان لڑکیوں کا آپ کیا کریں گے؟ ان کی دیکھ بھال کون کرے گا؟‘‘
اس سے قبل اے آئی یو ڈی ایف سربراہ بدرالدین اجمل بھی وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کے ذریعہ چائلڈ میرج کے خلاف ہو رہی سخت کارروائی پر اعتراض ظاہر کر چکے ہیں۔ 3 فروری کو انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پہلے عوام کے درمیان بیداری پیدا کی جانی چاہیے تھی اور مہم چلا کر لوگوں کو سمجھانا چاہیے تھا۔ اس طرح اچانک کارروائی ہونے سے لوگوں میں دہشت پیدا ہو گئی ہے۔ بدرالدین اجمل نے یہ بھی کہا کہ ریاست کی بی جے پی حکومت یہ کارروائی مسلمانوں کے خلاف کر رہی ہے، کیونکہ جب گرفتاریوں کا جائزہ لیا جائے گا تو پتہ چلے گا کہ 90 فیصد تعداد مسلمانوں کی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔