آسام شہریت معاملہ: آرٹیکل 6 اے پر ’سپریم‘ مہر لگنے کے بعد مولانا ارشد مدنی کا اظہارِ خوشی
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ موجودہ آسام حکومت کھلے عام مسلم مخالف ایجنڈے چلا رہی ہے، وہ کوشش کر رہی تھی کہ آرٹیکل 6اے منسوخ ہو جائے کیونکہ ایسی حالت میں 50 لاکھ مسلمانوں کی شہریت خطرے میں پڑ سکتی تھی۔
نئی دہلی: جمیعت علماء ہند کے قومی صدر مولانا ارشد مدنی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں حصہ لینے ازبکستان گئے ہوئے ہیں۔ اس درمیان انھوں نے ’آرٹیکل 6 اے‘ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ہم عدالت کے اس فیصلے کا استقبال کرتے ہیں۔ اس میں آرٹیکل 6اے کی بہت ہی مناسب اور صحیح وضاحت کی گئی ہے۔ آسام میں شہریت کو لے کر آئینی بنچ کے فیصلے سے جو خوف اور اندیشہ کے بادل چھائے ہوئے تھے، وہ کافی حد تک چھنٹ گئے ہیں۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ نفرت اور تفریق کی سیاست کے اس دور میں ایسے مسائل کو اٹھا کر مذہبی بنیاد پرستی اور نفرت کی آگ لگائی جا رہی ہے۔ آئینی بنچ کے اس فیصلے سے پتہ چلتا ہے کہ آج بھی آگ پر پانی ڈالنے والے لوگ موجود ہیں۔ مولانا مدنی نے مزید کہا کہ موجودہ آسام حکومت کھلے طور پر مسلم مخالف ایجنڈے چلا رہی ہے اور سرکار پوری کوشش کر رہی تھی کہ آرٹیکل 6اے منسوخ ہو جائے۔ کیونکہ ایسی حالت میں 50 لاکھ مسلمانوں کی شہریت خطرے میں پڑ سکتی تھی۔
جمیعت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ آسام کے وزیر اعلیٰ آئے دن مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ دراصل ایسا کر کے وہ ایک کھائی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صوبہ کے ہندو اور مسلمان کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ آج جو عدالتی فیصلہ آیا ہے وہ نہ صرف تاریخی ہے بلکہ اس فیصلے نے ان فرقہ پرست عناصر کے جذبات کو بھی بھڑکا دیا ہے، جو اس امید میں پاگل ہو رہے تھے کہ آرٹیکل 6اے کی منسوخی سے مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر ریاست سے باہر کر دیا جائے گا۔
مولانا مدنی کا کہنا ہے کہ تاریخی آسام معاہدہ کے بعد شہریت ایکٹ، 1951 آرٹیکل 6اے جوڑ کر شہریت کی حتمی بنیاد 25 مارچ 1971 طئے کر دی گئی تھی۔ اس بدلاؤ کو پارلیمنٹ سے بھی منظوری دی گئی تھی۔ اس کو حزب مخالف نے بھی قبول کر لیا تھا۔ بعد میں اس مسئلہ کو پورے زور و شور سے پھیلایا گیا تھا کہ اس ترمیم سے ریاست میں غیر قانونی طور پر آنے والوں کو شہریت مل جائے گی اور اس سے آسام کی تہذیب و ثقافت پر بھی اثر پڑے گا۔ اس مسئلہ کو نہ صرف فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا بلکہ صوبہ میں این آر سی بھی نافذ کیا گیا۔ لیکن آرٹیکل 6اے کو لے کر ہچکچاہٹ جاری رہی۔ کیونکہ کچھ تنظیموں کے لوگ اسے غیر قانونی بتا کر سپریم کورٹ گئے تھے، اس لئے شہریت کی آخری تاریخ مقرر نہیں کی جا سکی۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی بنچ نے نہ صرف آرٹیکل 6اے پر اپنی مہر لگا کر شہریت کے لئے وہی کٹ آف تاریخ مقرر کی جس کی پیروی جمیعت علمائے ہند نے پہلے دن سے کی، بلکہ اس فیصلے سے عدالت پر عام لوگوں کا یقین بھی بڑھا دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو فیصلہ عدالت نے سنایا ہے اس کے لئے ہمارے وکیل بھی قابل مبارکباد ہیں۔ انہوں نے اس اہم مسئلہ کو عدالت میں اچھے انداز میں پیش کیا اور اس کیس کی اچھے سے پیروی کی اور اپنی دلیلوں سے آئینی بنچ کو یہ یقین دلایا کہ امن و شانتی کو قائم رکھنے کے لئے آرٹیکل 6اے کتنا اہم ہے۔ مولانا مدنی نے اخیر میں کہا کہ اگر آرٹیکل 6 اے کو خارج کر دیا جاتا ہے تو آسام میں ایک بڑا انسانی بحران پیدا ہو جائے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔