صرف اِنتخابی فائدے کے لیے اروناچل کو نذرِ آتش کیا گیا
غیر اروناچلی شیڈول ٹرائب کو پی آر سی دینے کے معاملے کو بے وجہ گرم کیا گیا اور اس سے بھڑکی آگ کے پھیلنے پر جب حکومت کے لیے سنبھالنا مشکل ہو گیا تو اسے اپنا قدم واپس لینا پڑا۔
بی جے پی نے آسام کی طرح ہی ایک اور شمال مشرق ریاست اروناچل پردیش کو بھی بے وجہ ہی آگ میں جھونک دیا۔ اور جب اسے سمجھ میں آیا کہ خود اس کے ہاتھ اس آگ مں جل رہے ہیں تو پھر اپنے پیر واپس کھینچنے پڑے۔ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ بقیہ ہندوستان میں بھلے ہی بی جے پی راشٹرواد کی آڑ میں انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہی ہو، اسے اندازہ تو ہو ہی گیا ہے کہ شمال مشرق ریاستوں مں اس کی دال نہیں گلنے والی۔
اروناچل میں شہریوں کو مستقل رہائش سرٹیفکیٹ (پی آر سی) جاری کیے جاتے ہیں۔ یہ قانونی دستاویز ہے جسے سرکاری کاموں کے لیے پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شخص اس ریاست کا شہری ہے یا نہیں۔ اروناچل کی بی جے پی حکومت نے اشارہ دیا کہ وہ نامسیئی اور چانگلانگ ضلعوں میں رہنے والی چھ غیر اروناچلی شیڈول ٹرائب (اے پی ایس ٹی) کے لوگوں اور وجے نگر میں مقیم گورکھاوں کو بھی پی آر سی جاری کرنے پر غور کر رہی ہے۔
ان ٹرائبس میں دیوری، سونوال کچھاری، موران، قبائلی اور مشنگ بھی ہیں۔ انھیں پڑوسی ریاست آسام میں شیڈول ٹرائب کا درجہ حاصل ہے۔ انھیں پی آر سی جاری کرنے کی سفارش جوائنٹ اعلیٰ اختیار کمیٹی نے کی ہے۔ اس کمیٹی کی قیادت ریاست کے کابینہ وزیر نابام ریبیا کر رہے تھے۔ حالانکہ اسمبلی میں اس کی تجویز پاس ہونے کے بعد ہی انھیں یہ منظور مل سکتی ہے۔
حکومت نے جیسے ہی اپنی منشا ظاہر کی، مقامی لوگوں کا غصہ بھڑک گیا۔ اروناچل کے حقیقی باشندوں کا کہنا ہے کہ یہ ان کے حقوق میں کٹوتی جیسا قدم ہے۔ جب تشدد پھیلا تو بی جے پی نے اس کا الزام کانگریس پر لگانا شروع کر دیا، جس کی کوئی بنیاد نہیں تھی۔
بی جے پی تو پی آر سی کی سہولت دے کر انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھانا چاہ رہی تھی، لوک سبھا انتخابات کے ساتھ ہی یہاں اسمبلی انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ لیکن تشدد کے بعد ہی حکومت کو اندازہ ہوا کہ اس نے ایسا قدم اٹھا کر 'ہون' کرتے ہوئے اپنا ہی ہاتھ جلا لیا ہے۔ یہ احساس ہونے کے بعد بی جے پی نے اپنا اسٹینڈ بدلا۔ حکومت نے کمیٹی کی رپورٹ اسمبلی میں رکھنے سے بھی پرہیز کیا۔
مرکزی وزیر داخلہ کرن ریجیجو نے کہا کہ ریاستی حکومت پی آر سی پر بل نہیں لا رہی تھی بلکہ وہ ریبیا کی قیادت والی کمیٹی کی رپورٹ صرف اسمبلی میں پیش کر رہی تھی۔ انھوں نے کہا کہ صاف ہے کہ حکومت نے اس رپورٹ کو قبول نہیں کیا ہے۔ چیف سکریٹری ستیہ پال نے بھی مجموعی طور پر ایسی ہی بات کہی۔
ویسے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ بی جے پی پی آر سی پر تنازعہ صرف اس لیے چاہ رہی ہے تاکہ وہ انتخابات میں اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ سابق وزیر اعلیٰ نابام تکی نے دو اہم سوال اس سلسلے میں اٹھائے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کے دور حکومت میں راج بھون کے سامنے ایک شخص کی موت پر صد راج نافذ کر دیا گیا، لیکن ابھی اس تنازعہ میں سرکاری مشینری کی ناکامی کی وجہ سے تین لوگوں کی موت ہو گئی، کروڑوں کی ملکیت کا نقصان ہوا، پھر بھی صدر راج لگانے جیسا قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی نابام تکی نے ان آئینی ضابطوں کا تذکرہ کیا جس کے تحت غیر اروناچلی شیڈول ٹرائبس کو پی آر سی جاری نہیں کیا جا سکتا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 02 Mar 2019, 11:09 AM