’کیا ہم بھکاری ہیں، ہمیں بھیک نہیں چاہیے‘، بجٹ سفارشات پر شاملی کے کسانوں کا درد
گاؤں کے کسان اس اعلان کو انتخابی مذاق قرار دے رہے ہیں، اس بات پر حیران ہیں کہ کس طرح یہ مالی امداد ان کو قرضو ں اور پریشانیوں سے نجات دلا سکتی ہے۔
مغربی اتر پردیش کے ضلع شاملی کے کاندھلہ گاؤں کے رہنے والے وشال زرعی شعبہ میں شاملی کے کالج سے بی اے کرنا چاہتے تھے، لیکن 6 ماہ پہلے ان کا ایک ایکسیڈینٹ ہو گیا جس کے بعد سے وہ بستر پر ہی ہیں۔ ان کی والدہ 4 افراد پر مشتمل گھرکے اخراجات بڑی مشکل سے پوراکرتی ہیں ۔ ان کے پاس کچھ ایکڑ زمین ہے جس پر گنّے کی کھیتی ہوتی ہے۔ تقریباً ایک سال سے ان کو چینی مل مالکان نے ان کے گنّوں کا بقایا ادا نہیں کیا ہے ۔یہ خاندان اپنے روز مرہ کے اخراجات کے لئے بھینس کے دودھ پر انحصار کرتا ہے۔ اس گاؤں کے لوگ عام بجٹ کا بڑی بے قراری کے ساتھ انتظار کر رہے تھے کیونکہ پورا گاؤں دو مسائل سے زبردست پریشان ہے ،ایک تو چینی مل مالکان ان کے گنّو ں کا بقایا ادا نہیں کر رہے دوسرا گاؤں کی لاوارث گائیں ان کے کھیتوں کو تباہ کر رہی ہیں ۔ لیکن گاؤں کے لوگ عام بجٹ سے بہت مایوس ہوئے کیونکہ جزوقتی وزیر خزانہ پیوش گوئل نے بجٹ میں جس طرح پردھان منتری کسان سمّان اسکیم کے تحت غریب کسانوں کو 6 ہزار روپے سالانہ دینے کا اعلان کیا ہے وہ ان کو اپنے مسائل کا حل نظر نہیں آتا۔
گاؤں کے کسان اس اعلان کو انتخابی مذاق قرار دے رہے ہیں، اس بات پر حیران ہیں کہ کس طرح یہ مالی امداد ان کو قرضو ں اور پریشانیوں سے نجات دلا سکتی ہے۔
کاندھلہ کے قریبی گاؤں کے رہنے والے راہل چودھری ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر بجٹ سفارشات غور سے سن رہے تھے مگر اس میں انہیں کسانوں کے لئے کچھ نہیں ملا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’6 ہزار روپے دینے سے کیاہوگا؟ کیڑے مارنے کی دوا ہی کئی ہزار کی آتی ہے، اس معمولی رقم سے کسانوں کو کس طرح فائدہ ہوگا؟ اگر حکومت کسی ایسے ضابطہ کا اعلان کرتی کہ چینی مل مالکان اگر وقت پر گنّا کسانوں کا بقایا ادا نہیں کریں گے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی، تو شائد ایک مثبت قدم ہوتا لیکن بد قسمتی سے اس بجٹ کا کسانوں سے کوئی مطلب نہیں ہے‘‘۔یہاں کے کسانوں کو امید تھی کہ اگر چینی مالکان 14دن کے اندر بقائے کی رقم ادا نہیں کرتے تو وہ مجرم قرار دیئے جائیں گے۔
کاندھلہ کے ہی دوسرے کسان وکاس ہیں جن کے پاس 12 بیگھہ زمین تھی لیکن ان کو اس میں سے 8 بیگھہ زمین اپنی اہلیہ کے علاج کے لئے فروخت کرنی پڑی کیونکہ وہ کینسر سے جنگ لڑ رہی ہیں ۔ ان کو بھی چینی مل مالکان سے اپنے گنے کے ادائیگی کا انتظار ہے۔ چالیس سالہ وکاس کا کہنا ہے ’’بیج اور کھاد پر کوئی رعایت کا اعلان نہیں کیا گیا 500روپے ماہانہ کیا ہوتے ہیں ؟کیا ہم بھکاری ہیں ؟ ہمیں کوئی بھیک نہیں چاہیے ۔ 14دن کی ادائیگی مدت کی بھی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو اس کا کیا فائدہ ہے ‘‘
شاملی ضلع میں کسانوں کی لڑائی میں پیش پیش رہنے والے چودھری ساوت ملک کا کہنا ہے کہ ’’پیدوار کی کم از کم لاگت قیمت (ایم ایس پی )نئی نہیں ہے ۔ مہاراشٹر کے کسانوں کو ایک کلو ٹماٹر اور آلو کا ایک روپے مل رہا ہے تو ایم ایس پی کہاں ہے؟ حکومت نے 1600 روپے فی کوینٹل طے کیا تھا لیکن منڈیاں اس قیمت پر لینے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں اس لئے کسانوں کو طے قیمتوں سے کم قیمت پر اپنی پیداوار فروخت کرنی پڑ رہی ہے‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جس کسان کو ٹماٹر کی قیمت ایک روپے کلو مل رہی ہے اس کو جب یہی ٹماٹر بازار سے خریدنا ہوتا ہے تو اس کو وہ 25روپے فی کلو خریدنا پڑتا ہے۔
ایک اور کسان جن کا نام روندر کمار ہے جنہوں نے اپنی بٹیی کی شادی کے لئے زمین رہن رکھ دی تھی ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنا مکان بھی بیچ دیں جب بھی اپنا قرض نہیں اتار سکتے۔ شاملی کے کسان صرف چینی مل مالکان کے رویہ سے ہی پریشان نہیں ہیں بلکہ وہ ان لاوارث گایوں سے بھی پریشان ہیں جو ان کی کھیتی تباہ کر رہی ہیں ۔ اس علاقہ کے لوگوں کو امید تھی کہ بجت میں گئو شالاؤں کے لئے رقم مختص کی جاتی تاکہ ان لاوارث گایوں کے لئے کوئی انتظام ہو جاتا اور ان کے کھیتوں می کی فصل بچ جاتی۔
(بشکریہ نیوز18 )
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔