متھرا-کاشی کے علاوہ 40 مذہبی مقامات کو ایودھیا کی طرز پر ’آزاد’ کرایا جائے گا! ہندو تنظیم کا اعلان
وشو ویدک سناتن سنگھ کے سربراہ جتیندر سنگھ وسین نے دعویٰ کیا ہے کہ ایودھیا، کاشی، متھرا اور بھوج شالہ کے بعد مندر مسجد سے متعلق 40 مزید معاملات پر 2024 میں بسنت پنچمی سے کام شروع کیا جائے گا
نئی دہلی: اتر پردیش کے ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر اگلے ماہ ایک وسیع رام مندر کا افتتاح ہونے جا رہا ہے۔ جبکہ متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد اور وارانسی کی گیانواپی مسجد پر ہندو فریقین دعویٰ کر رہے ہیں اور ان سے متعلق مقدمات کئی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اس کے علاوہ مدھیہ پردیش کے دھار میں واقعہ مسجد کمال مولا کا معاملہ بھی عدالت میں زیر غور ہے۔ دریں اثنا ہندو تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس طرح کے 40 معاملات کو عدالت میں لے جایا جائے گا۔
وشو ویدک سناتن سنگھ نامی تنظیم کے سربراہ جتیندر سنگھ وسین نے دعویٰ کیا ہے کہ 2024 میں بسنت پنچمی کے موقع پر 40 مذہبی مقامات کو ’آزاد‘ کرانے کی مہم کی شروعات کی جائے گی۔ جتیندر سنگھ نے کہا ہے ’’ایودھیا میں شری رام جنم بھومی کے معاملے پر کام مکمل ہو چکا ہے۔ متھرا میں شری کرشنا جنم بھومی کیس میں کام جاری ہے۔ کاشی میں گیانواپی پیچیدہ تنازعہ پر بھی کام جاری ہے۔ مدھیہ پردیش کے دھار میں بھوج شالا کے معاملے پر بھی کام جاری ہے۔‘‘
جتیندر سنگھ نے مزید کہا، ’’اب 40 دیگر مذہبی مقامات کی آزادی کے لیے بیک وقت عدالتی/آئینی مذہبی جنگ کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ 2024 میں بسنت پنچمی کو آئینی مذہبی جنگ شروع کرنے کا بگل بجایا جائے گا۔‘‘
متھرا تنازعہ کیا ہے؟
متھرا میں شاہی عیدگاہ مسجد-شری کرشن جنم بھومی تنازعہ 13.37 ایکڑ اراضی پر ملکیتی حقوق سے متعلق ہے۔ 12 اکتوبر 1968 کو شری کرشنا جنم استھان سیوا سنستھان نے شاہی عیدگاہ مسجد ٹرسٹ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے میں 13.7 ایکڑ اراضی پر مندر اور مسجد دونوں بنانے کی بات کی گئی تھی۔ شری کرشنا جنم استھان کے پاس 10.9 ایکڑ اراضی کے مالکانہ حقوق ہیں اور شاہی عیدگاہ مسجد کے پاس 2.5 ایکڑ اراضی کے مالکانہ حقوق ہیں۔
ہندو فریق کا کہنا ہے کہ شاہی عیدگاہ مسجد ناجائز تجاوزات سے بنائی گئی ہے اور اس زمین پر ان کا دعویٰ ہے۔ ہندوؤں کی جانب سے شاہی عیدگاہ مسجد کو ہٹانے اور اس زمین کو شری کرشنا جنم استھان کو سونپنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
گیانواپی مسجد تنازعہ کیا ہے؟
جس طرح ایودھیا میں رام مندر اور بابری مسجد کے درمیان تنازعہ تھا، اسی طرح گیانواپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر کے درمیان بھی تنازع ہے۔ 1991 میں کاشی وشوناتھ مندر کے پجاریوں کے خاندان سے وابستہ پنڈت سومناتھ ویاس اور سماجی کارکن پروفیسر ڈاکٹر رام رنگ شرما اور سماجی کارکن ہریہر پانڈے نے وارانسی سول کورٹ میں ایک عرضی دائر کی۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ کاشی وشوناتھ کا اصل مندر 2050 سال قبل بادشاہ وکرمادتیہ نے بنایا تھا۔ اورنگ زیب نے اسے 1669 میں گرا دیا اور اس کی جگہ گیانواپی مسجد بنائی۔ اس مسجد کی تعمیر میں مندر کی باقیات کا استعمال کیا گیا۔ ہندو فریق کا مطالبہ ہے کہ گیانواپی مسجد کو یہاں سے ہٹا کر پوری زمین ہندوؤں کے حوالے کی جائے۔
مسجد کمال مولا تنازعہ کیا ہے؟
مسجد کمال مولا مدھیہ پردیش کے دھار میں واقع ہے اور اس کے برابر میں بھوج شالا موجود ہے۔ ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ مسجد کو بھی بھوج شالا کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے اور یہ سرسوتی کا مندر ہے۔ اس حوالے سے دونوں کے درمیان کافی عرصے سے تنازعہ چل رہا تھا۔ بھوج شالا کا نام راجہ بھوج کے نام پر رکھا گیا تھا، یہ ایک یادگار ہے جسے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے محفوظ عمارت قرار دیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔