بنگال کے شاہین باغ ’پارک سرکس‘ میں احتجاج کو ایک مہینہ مکمل، خواتین کے حوصلے بلند
شاہین باغ کی طرز پر کولکاتا کے پارک سرکس میدان میں جاری خواتین کے احتجاج کو ایک ماہ پورا ہو گیا، یہاں پارک سرکس کے علاوہ خضر پور، ناخدا مسجد ،ہوڑہ، آسنسول اور دیگر مقامات پر بھی احتجاج جاری ہے
کولکاتا: دہلی کے شاہین باغ کے طرز پر کولکاتا کے پارک سرکس میدان میں جاری خواتین کے احتجاج کو ایک مہینہ مکمل ہو چکا ہے۔ کولکاتا میں پارک سرکس کے علاوہ خضر پور، ناخدا مسجد ،ہوڑہ، آسنسول اور دیگر مقامات پر خواتین احتجاج کر رہی ہیں۔
شہر کے قلب میں واقع ہونے کی وجہ سے پارک سرکس میدان میں مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں خواتین شرکت کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ عالیہ یونیور سٹی، جادو پور یونیورسٹی، کلکتہ یونیورسٹی اور پریزیڈنسی یونیورسٹی سمیت متعدد یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات بھی احتجاج میں شرکت کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پارک سرکس میدان میں احتجاج کےلئے آنے والی ایک خاتون صمیدہ بیگم کا حرک قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔ گزشتہ ہفتے سنیچر کو وہ رات میں پارک سرکس میدان کے دھرنے میں موجود تھیں اسی درمیان ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔ انہیں اسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہیں ہوسکیں۔
پارک سرکس میدان میں احتجاج کے ابتدائی دنوں میں بنگال حکومت کے سخت رویے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی سہولت کے انتظامات نہیں تھے مگر 17جنوری کو بنگال حکومت نے مائیک، پنڈال استعمال کرنے اور دیگر سہولیات کے انتظامات کرنے کی اجازت دیدی۔
روزانہ شام کو احتجاج میں شرکت کیلئے آنے والی ایک گھریلو خاتون نے بتایا کہ وہ آج تک کسی بھی قسم کے احتجاج میں شریک نہیں ہوئی ہیں مگر یہ احتجاج اور دھرنا سب سے الگ ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارے مستقبل کا سوال ہے۔ ہمارے بچوں کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ ہم یہاں ملک کے دستور کو بچانے اور بچوں کے مستقبل کی حفاظت کیلئے جدو جہد کر رہے ہیں۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ ان دھرنوں کا کیا فائدہ جب حکومت سننے کو تیار نہیں اور وزیر داخلہ شہریت ترمیمی ایکٹ کو واپس نہیں لینے کا اعلان کرچکے ہیں؟ عالیہ یونیور سٹی کی ایک طالبہ نے کہا کہ حکومت ملک بھر میں جاری خواتین کے احتجاج سے پریشان ہو چکی ہے۔گرچہ وہ یہ دکھانے کی کوشش کر رہی ہے ان احتجاجات سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت پریشان ہے، یہی وجہ ہے کہ کل تک ’کرونالوجی‘ سمجھانے والے آج کہہ رہے ہیں کہ این آر سی پر ابھی غور نہیں کیا گیا ہے۔ اگر خواتین استقامت کے ساتھ احتجاج نہیں کرتیں تو حکومت اب تک این آر سی لانے کا اعلان کر چکی ہوتی۔‘‘
حالیہ دنوں میں ریاست کے حکمراں جماعت کے لیڈروں کی احتجاج میں شرکت اور انہیں اہمیت دییے جانے پر بھی کئی لوگوں کو ناراضگی ہے۔ ایک شخص نے بتایا کہ 17 جنوری تک حکمراں جماعت کے مسلم لیڈران دھرنے سے دوری بنائے ہوئے تھے مگر دس دن جب حکومت نے دھرنے کےلئے مائیک، موبائل باتھ روم اور سائبان لگانے کی اجازت دیدی تو اس کے فوری بعد حکمراں جماعت کے مسلم لیڈران بڑی تعداد میں دھرنے میں آنے لگے۔ ٹی ایم سی کے لیڈران نے یہ تاثرات بھی دینے کی کوشش کی ہے کہ ممتا بنرجی ان کے ساتھ ہیں۔
بیگ باغان کے رہنے والے آفتاب احمد کہتے ہیں کہ حکمراں جماعت کے لیڈروں کو اہمیت دینے اور انہیں تقریر کرنے کا موقع فراہم کرنے سے دھرنے کی اہمیت اور ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف ممتا بنرجی اور ترنمول کانگریس مہم چلارہی ہے اور بنگال میں نافذ نہیں کرنے کا اعلان کررکھا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کانگریس اور بایاں محاذ بھی اس کے خلاف مہم چلارہی ہے اور سب سے پہلے کیرالہ حکومت نے ہی اسمبلی میں قرار دادا پاس کیا ۔ایسے میں اس دھرنے کو کسی خاص سیاسی جماعت کے قدم میں ڈال دینے سے فائدہ کم نقصان زیادہ ہوگا۔ خیال رہے کہ بی جے پی کے لیڈران یہ کہتے رہےہیں کہ اس دھرنے کو حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔