شہریت قانون: پولس اور جامعہ طلبا کے درمیان تصادم، درجنوں طلبا زخمی، اسپتال میں داخل
جامعہ سے پارلیمنٹ ہاؤس تک احتجاجی مارچ نکال رہے سینکڑوں طلبا و مقامی لوگوں کو پولس نے ہولی فیملی اسپتال کے پاس روک دیا۔ یہاں مظاہرین اور پولس کے درمیان دھکا-مکی کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا، سابق طلبا اور مقامی لوگوں کے ذریعہ جامعہ سے پارلیمنٹ ہاؤس تک مارچ نکالنے کی کوشش اس وقت ناکام ہو گئی جب وہاں بڑی تعداد میں موجود دہلی پولس نے طاقت کا استعمال کر کے انھیں روک دیا۔ طلبا اور مقامی لوگ شہریت ترمیمی قانون و این آر سی کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کے مقصد سے یہ احتجاجی مارچ نکال رہے تھے، لیکن پولس کا کہنا تھا کہ انھیں اس کی اجازت نہیں ہے اس لیے آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ یہ سن کر پرامن مارچ نکالنے کے لیے آگے بڑھ رہے طلبا ناراض ہوئے اور پھر پولس کے ساتھ ان کی تو تو-میں میں شروع ہو گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ کچھ طلبا نے پانی کا پاؤچ پولس کی طرف پھینکا اور پھر پولس نے لاٹھی چارج کر دیا۔
دراصل جامعہ کوآرڈنیشن کمیٹی نے شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پارلیمنٹ تک احتجاجی مارچ نکالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسے دہلی پولس نے ہولی فیملی اسپتال کے قریب روک دیا۔ جامعہ کے طلبا اس عمل سے کافی ناراض ہوئے اور وہ پارلیمنٹ تک مارچ نکالنے کے لیے بضد نظر آئے۔ مارچ نکالنے والوں میں لڑکیاں بھی بڑی تعداد میں شامل تھیں۔ پولس نے جب لاٹھی چارج کیا تو وہاں بھگدڑ کا ماحول پیدا ہو گیا۔ کچھ طلبا پولس لاٹھی چارج میں زخمی ہوئے اور بتایا جاتا ہے کہ کچھ بھگدڑ کی وجہ سے زخمی ہو گئے۔
پارلیمنٹ ہاؤس مارچ نکالنے والوں میں شامل کچھ مظاہرین کا کہنا ہے کہ پولس نے بربریت کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے ہنگامہ پیدا ہو گیا اور کم و بیش 100 طلبا زخمی ہو گئے جن میں کئی طالبات بھی شامل ہیں۔ اس واقعہ میں میران حیدر نامی ایک طالب علم بھی زخمی ہوا جسے کافی چوٹیں آئیں اور الٹرا ساؤنڈ کے لیے قریبی لیب میں لے جایا گیا۔ جامعہ کے ایک طالب علم نے ’قومی آواز‘ کو فون پر بتایا کہ زخمی طلبا کو ہولی فیملی اسپتال، الشفا اسپتال اور انصاری ہیلتھ سنٹر میں داخل کرایا گیا ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق زیادہ تر طلبا کو معمولی چوٹیں آئی تھیں اور ابتدائی علاج کے بعد انھیں اسپتال سے چھٹی مل گئی ہے، لیکن کئی طلبا ایسے ہیں جنھیں شدید چوٹ پہنچی ہے۔ کچھ ایسی تصویریں بھی سامنے آئی ہیں جن میں زخمی لڑکیاں بیہوش پڑی ہوئی ہیں اور کچھ لوگ انھیں اٹھا کر علاج کے لیے لے جا رہے ہیں۔ مظاہرہ میں شامل زیبا انہد نامی ایک طالبہ نے میڈیا سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ’’ہم دو مہینے سے مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہم سے بات کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی نہیں آیا، اس لیے ہم ان کے پاس جانا چاہتے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہمیں پولس نے پارلیمنٹ ہاؤس جانے سے روک دیا جس کے بعد دھکا-مکی ہوئی اورماحول خراب ہو گیا۔‘‘
اس پورے واقعہ کے تعلق سے پولس کا کہنا ہے کہ مظاہرین کو پارلیمنٹ کی طرف مارچ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ یونیورسٹی کے آس پاس سیکورٹی اہلکاروں کو بڑی تعداد میں اسی لیے تعینات کیا گیا تھا تاکہ وہ آگے نہ بڑھیں۔ پولس نے بتایا کہ مظاہرین نے جامعہ کے گیٹ نمبر 7 سے اپنا مارچ شروع کیا اور جب انھیں آگے نہ بڑھنے کی اپیل کی گئی تو وہ ’کاغذ نہیں دکھائیں گے‘ اور ’جب نہیں ڈرے ہم گوروں سے تو کیوں ڈریں ہم اوروں سے‘ جیسے نعرے لگانے لگے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔