گورکھپور-پھول پور انتخاب: بی جے پی مخالف ووٹوں کا پولرائزیشن کیا گل کھلائے گا!

بہوجن سماج پارٹی کی حمایت کے سبب اس ضمنی انتخاب میں بی جے پی کا سماجوادی پارٹی کے امیدوار سے براہ راست مقابلہ ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔

تصویر شوسل میڈیا
تصویر شوسل میڈیا
user

منوج سنگھ

4 مارچ کو بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) نے جب گورکھپور اور پھول پور میں سماجوادی پارٹی (ایس پی) امیدوار کو حمایت دینے کا اعلان کیا اس کے بعد سے دونوں ضمنی انتخابات کا منظرنامہ ہی بدل گیا ہے اور انتخابی تجزیہ نگاروں سے لے کر میڈیا کی دلچسپی اچانک اس انتخاب میں بڑھ گئی ہے۔ یہ سوال پوچھا جانے لگا ہے کہ کیا وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کی سیٹ انتخابی چکرویوہ میں پھنس گئی ہے؟

گورکھپور سیٹ پر تین دہائیوں بعد پہلی بار گورکھ ناتھ مندر سے جڑا کوئی شخص انتخابی میدان میں نہیں ہے۔ یہاں پر بی جے پی نے اپنے ایک پرانے کارکن اوپیندر دَت شکل کو امیدوار بنایا ہے۔ گورکھپور سیٹ 1989 سے لگاتار گورکھ ناتھ مندر کے پاس ہے۔ 1989 سے 1998 تک یوگی آدتیہ ناتھ کے گرو مہنت اویدیہ ناتھ یہاں کے ممبر پارلیمنٹ رہے۔ اس دوران وہ لگاتار تین انتخابات جیتے۔ اس کے بعد سے یوگی آدتیہ ناتھ لگاتار پانچ بار سے انتخاب جیتتے آ رہے ہیں۔

گورکھ ناتھ مندر کے مہنت ملک کی آزادی کے بعد سے انتخابی سیاست میں سرگرم ہیں۔ مہنت دگ وجے ناتھ 1952 اور 1957 کا الیکشن ہندو مہاسبھا سے لڑے لیکن کانگریس کے سنہاسن سنگھ سے ہارے۔ تیسری بار انھیں 1967 میں فتح حاصل ہوئی۔ دو سال بعد ان کا انتقال ہو گیا اور 1969 میں ضمنی انتخاب ہوا جس میں مہنت اویدیہ ناتھ فتحیاب ہوئے۔ لیکن 1970 کے انتخاب میں وہ کانگریس امیدوار نرسنگھ نارائن پانڈے سے ہار گئے۔ اس کے بعد وہ انتخابی سیاست سے دور ہو گئے۔ رام مندر کی سیاست شروع ہونے پر وہ پھر سے 1989 میں سیاست میں لوٹے۔

1989 سے 2014 تک کے آٹھ انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ صرف دو بار 1998 اور 1999 میں یوگی آدتیہ ناتھ کو سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ 1998 کا انتخاب 26206 اور 1999 کا انتخاب صرف 7339 ووٹوں سے جیتے۔ دونوں بار سماجوادی پارٹی امیدوار جمنا نشاد نے انھیں ٹکر دی۔ ان دونوں انتخابات میں بی ایس پی امیدوار نے بالترتیب 15.23 اور 13.54 فیصد ووٹ بانٹ لئے، نہیں تو انتخاب کا نتیجہ کچھ اور ہو سکتا تھا۔

سال 1998 میں بے حد نزدیکی مقابلے میں فتحیابی کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ نے ہندو یوا واہنی تشکیل دی۔ اس کے بعد گورکھپور اور آس پاس کا علاقہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں جھلس گیا۔ اس کا انتخابی فائدہ یوگی آدتیہ ناتھ کو ہوا اور 1998 کے بعد سال 2004، 2009 اور 2014 میں ان کی فتح کا فرق بڑھتا گیا۔ سال 2014 کا انتخاب وہ 51.80 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے 312783 ووٹ کے فرق سے جیتا۔ گزشتہ تین انتخابات سے ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس کے مشترکہ ووٹ سے بھی زیادہ ووٹ یوگی آدتیہ ناتھ کو مل رہے ہیں۔

اس طرح دیکھیں تو بی جے پی امیدوار کو کسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے لیکن ان انتخابات میں پسماندہ اور اقلیتی ووٹوں میں تقسیم دیکھی گئی جس کا فائدہ یوگی آدتیہ ناتھ کو ہوتا رہا ہے۔ مقابلہ ہمیشہ سہ رخی رہا۔ کانگریس یہاں پر گزشتہ چھ انتخابات سے اپنی کوئی طاقت نہیں دکھا پائی ہے اور چھ بار سے اس کی ضمانت ضبط ہوتی رہی ہے۔ اس کا ووٹ فیصد 2.60 سے 4.85 کے درمیان رہا ہے۔ اس مرتبہ کانگریس نے ڈاکٹر سُرہِتا کریم کی شکل میں ایک بہترین امیدوار میدان میں اتارا ہے لیکن ایس پی اور بی جے پی کے درمیان ووٹوں کے پولرائزیشن کے سبب اس بار بھی کانگریس کی حالت گزشتہ انتخابات سے بہتر ہونے کی امید نہیں لگ رہی ہے۔

بی ایس پی کی حمایت کے سبب اس انتخاب میں بی جے پی کا ایس پی امیدوار سے براہ راست مقابلہ ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ نشاد، یادو، دلت اور مسلمان ووٹروں کی کثرت ایس پی امیدوار کے حق میں نظر آ رہی ہے لیکن سوال یہی ہے کہ کیا بی ایس پی کا مکمل دلت ووٹ اور نشاد پارٹی کا مکمل نشاد ووٹ ایس پی کے حق میں جمع ہو پائے گا؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو ایس پی کا مسلمان اور یادو ووٹ مل کر کامیابی کا فارمولہ تیار کر سکتے ہیں۔

گزشتہ سال 2014 کے لوک سبھا اور 2017 کے اسمبلی انتخابات میں دلت اور پسماندہ طبقات کے ووٹوں کا کچھ حصہ بی جےپی کے ساتھ چلا گیا تھا، اس لیے اسے دونوں انتخابات میں بڑی کامیابی ملی تھی۔ لیکن مرکز اور ریاست میں بی جے پی حکومت بننے کے بعد سے دلتوں اور پسماندہ طبقات کی بی جے پی سے نارضگی بڑھی ہے۔ ملک کے دیگر حصوں کے علاوہ اتر پردیش کےسہارنپور میں دلتوں پر تشدد اور بھیم آرمی کے بانی چندر شیکھر آزاد راون کی گرفتاری، ان کو ضمانت ملنے کے باوجود راسوکا لگا کر جیل کے اندر رکھنے سے دلتوں میں زبردست ناراضگی ہے اور وہ تحریک کے ذریعہ اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ الٰہ آباد میں دلت نوجوان کا پیٹ پیٹ کر قتل اور ہولی پر دیوریا و گورکھپور میں امبیڈکر کا مجسمہ توڑنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان واقعات سے دلتوں میں یہ یقین پختہ ہوتا جارہا ہے کہ بی جے پی دلت مخالف ہے۔

اسی طرح نظامِ قانون ٹھیک کرنے کے نام پر تصادم میں جو نوجوان مارے گئے ان میں زیادہ تر مسلمان اور پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ گرفتار لوگوں میں بھی پسماندہ ذات کی تعداد زیادہ ہے۔ بات چیت میں پسماندہ ذاتوں کے لوگ اس بات کی شکایت کر رہے ہیں کہ بی جے پی حکومت میں ان پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں، جو ذاتی پارٹیاں جیسے سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی و دیگر بی جے پی کے ساتھ شامل ہیں ، ان کی شکایت ہے کہ انھیں بے اثر وزارت دی گئی ہیں اور افسر ان کی سنتے بھی نہیں ہیں۔ اس سے ان کا بی جے پی پر بھروسہ ختم ہوا ہے۔

اس صورت حال نے انتہائی پسماندہ ذاتوں کو بی جے پی کی جگہ کسی دوسری پارٹی کی طرف دیکھنے کے لیے مجبور کیا ہے۔ ایس پی نے اس کا فائدہ اٹھایا اور نشاد پارٹی اور پسماندہ مسلمانوں کی’پیس پارٹی‘ سے اتحاد کر لیا۔ پاسی سماج کے دو بڑے لیڈروں آر کے چودھری اور اندرجیت سروج کو ایس پی اپنی پارٹی میں لے آئی۔ یہی نہیں، اس نے بی ایس پی سے ضمنی انتخاب، اسمبلی کونسل اور راجیہ سبھا انتخاب کے لیے قلیل مدتی اتحاد کر کے سبقت بنانے کی کوشش کی۔ یادووں کے علاوہ دیگر پسماندہ ذاتوں کو پارٹی سے جوڑنے کی مہم کے تحت ہی پھول پور سے پٹیل برادری اور گورکھپور سے جوڑنے کی مہم کے تحت نشاد برادری کے فرد کو امیدوار بنا کر ایس پی نے بڑا داؤ کھیل دیا۔ گورکھپور میں 7 مارچ کے جلسہ میں اکھلیش یادو نے نشاد پارٹی کو ایس پی کا چھوٹا بھائی بتایا۔

چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کی کوششیں اسمبلی انتخابات کے دوران بھی ہوئی تھیں۔ خصوصاً ’پیس پارٹی‘ کے سربراہ ڈاکٹر ایوب نے تو اخباروں میں اشتہار دے کر بہار کی طرز پر ’مہاگٹھ بندھن‘ بنانے کی وکالت کی تھی لیکن تب ایس پی، کانگریس نے ان پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ انتخابی نتائج نے واضح کیا کہ اگر ان چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ لیا گیا ہوتا تو بی جے پی مخالف ووٹوں کا بکھراؤ روکا جا سکتا تھا اور انتخابی نتائج اتنے برے نہیں ہوتے۔

آج گورکھپور میں ہوئے جلسہ میں نشاد پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر سنجے کمار نشاد نے ٹھیک یہی بات کہی۔ انھوں نے کہا کہ آج بھی بی جے پی مخالف ووٹ 60 سے 70 فیصد ہے لیکن یہ مختلف پارٹیوں میں منقسم ہے۔ بی جے پی دلتوں، پسماندہ طبقات اور اقلیتی ووٹوں کی تقسیم سے مضبوط ہوئی ہے نہ کہ اپنی مضبوطی سے۔ اس ضمنی انتخاب میں پہلی بار بی جے پی مخالف ووٹوں کا پولرائزیشن ہوا ہے جو اتر پردیش کی سیاست میں نئی تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

دراصل گورکھپور اور پھول پور کا ضمنی انتخاب اتر پردیش میں ذات پر مبنی نئے اتحاد کا لٹمس ٹیسٹ ہے۔ یہ تجربہ اگر کامیاب ہوتا ہے تو 2019 کے انتخابات میں نئے انتخابی فارمولے بنیں گے جو بی جے پی کے سامنے مشکل چیلنج پیش کریں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔