اردو ادب کا ایک اور ستارہ خاموش ہو گیا، مشرف عالم ذوقی نے دنیا کو کہا الوداع
58 سالہ مشرف عالم ذوقی ہندوستان کے فکشن نگاروں میں اپنی منفرد تخلیقات کی وجہ سے نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے 14 ناول اور افسانوں کے 8 مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔
اردو ادب کی مشہور و معروف شخصیت اور اپنے افسانوں و ناولوں کے ذریعہ پوری دنیا میں دھوم مچانے والے مشرف عالم ذوقی بھی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ کچھ دنوں سے وہ کافی علیل تھے اور اسپتال میں زیر علاج تھے۔ 19 اپریل کو انھوں نے آخری سانس لی اور ادبی حلقہ کو سوگوار کر کے اس دنیا سے چلے گئے۔ اس طرح اردو ادب کا ایک اور ستارہ خاموش ہو گیا، لیکن ان کی تحریریں اپنی چمک ہمیشہ بکھیرتی رہیں گی۔
یہ بھی پڑھیں : بچوں کا جانی دشمن بن گیا ہے کورونا کا ’برازیلی اسٹرین‘
مشرف عالم ذوقی کے انتقال کی خبر ادبی حلقہ میں جیسے ہی پھیلی، رنج و الم کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ سوشل میڈیا تعزیتی پیغامات کا ایک سیلاب امنڈ پڑا ہے۔ ڈاکٹر امام اعظم نے ایک واٹس ایپ گروپ لکھا ہے کہ ’’ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ممتاز فکشن نگار مشرف عالم ذوقی ابھی کچھ دیر قبل انتقال فرما گئے۔ اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے۔ آمین۔ کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں/بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔‘‘ مشرف عالم ذوقی سے لگاتار رابطے میں رہنے والے رہبر حسنین نے اپنے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا ہے ’’کووڈ نے ایک اور عظیم شخصیت کی جان لے لی۔ خدا ایم اے ذوقی صاحب کی مغفرت فرمائے۔ خانوادے کو صبر عطا کرے۔‘‘
واضح رہے کہ 58 سالہ مشرف عالم ذوقی ہندوستان کے فکشن نگاروں میں اپنی منفرد تخلیقات کی وجہ سے نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے 14 ناول اور افسانوں کے 8 مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ موجودہ ہندوستان کے سیاسی پس منظر میں لکھے گئے ان کے ناول ’مرگ انبوہ‘ اور ’مردہ خانے میں عورت‘ نے عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کی ۔ انھوں نے اپنے ہم عصر ادیبوں کے بہترین خاکے بھی لکھے۔ انھوں نے دیگر اصناف میں بھی متعدد کتابیں لکھیں۔
یہ بھی پڑھیں : دہلی میں آج رات 10 بجے سے ایک ہفتہ کا لاک ڈاؤن
مشرف عالم ذوقی 24 نومبر 1963 کو بہار کے ضلع آرہ میں پیدا ہوئے اور مگدھ یونیورسٹی، گیا سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1992 میں ان کا پہلا ناول ’نیلام گھر‘ شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ان کے ناولوں میں ’شہر چپ ہے‘، ‘مسلمان’، ‘بیان’، ‘لے سانس بھی آہستہ’، ‘ آتشِ رفتہ کا سراغ’ پروفیسر ایس کی عجیب داستان ، ‘نالۂ شب گیر’ اور ‘مرگ انبوہ’ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ ذوقی کا فکشن متنوع موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ برصغیر کے اقلیتی طبقوں کے مسائل اور سماجی و انسانی سروکاروں کی انھوں نے اپنی تحریروں میں بھرپور ترجمانی کی۔ وہ موجودہ عہد کی گھٹن، صارفیت اور سیاسی ظلم و زیادتی کے خلاف مسلسل احتجاج کرتے رہے۔ ان کا فکشن اردو تک محدود نہیں ہے بلکہ ہندی اور دوسری زبانوں کے رسائل و جرائد میں بھی ان کی تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں۔ وہ اس عہد کے ان فن کاروں میں سے تھے جن کا تخلیقی کینوس وسیع و ہمہ رنگ تھا۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کئی ادبی اداروں نے انھیں مختلف اعزازات سے بھی نوازا۔ آخری ایوارڈ انھیں ادارہ کسوٹی جدید کی طرف سے اِس سال کے شروع میں دیا گیا تھا۔ ان کی وفات سے ادبی حلقوں میں شدید رنج و غم کا ماحول برپا ہوگیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 19 Apr 2021, 3:48 PM