این ڈی اے کو ایک اور جھٹکا، مرکزی وزیر نے اپوزیشن سے ’ہاتھ ملایا‘
بی جے پی یوتھ وِنگ کے ریاستی صدر اور ممبر اسمبلی نتن نوین نے این ڈی اے سے کشواہا کی دوری کی سخت الفاظ میں تنقید کی ہے جب کہ جنتا دل یو نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
بہار میں مرکزی وزیر کشواہا کے ہیومن چین پروگرام نے جو نظارہ پیش کیا اس سے بی جے پی نیند اڑنا لازمی تھا کیونکہ این ڈی اے میں شیو سینا اور ٹی ڈی پی کے بعد ایک نئے شگاف کا واضح اشارہ ملا ہے۔بہار کی سیاست میں اس وقت ایک بڑا بھوچال محسوس کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ ہے این ڈی اے میں شامل راشٹریہ لوک سمتا پارٹی (آر ایل ایس پی) کے قومی صدر اور مودی کابینہ میں وزیر اوپیندر کشواہا کے ’ہیومن چین‘ پروگرام میں شامل ہونے والے چہرے۔ دراصل این ڈی اے میں شامل ہونے کے باوجود کشواہا کے ذریعہ ریاست میں تعلیمی بدحالی کے مدنظر منعقد ہیومن چین پروگرام میں برسراقتدار پارٹی میں سے کوئی بھی شامل نہیں ہوا۔ ساتھ ہی حیرانی کی بات یہ ہوئی کہ اس پروگرام میں اچانک بہار میں اپوزیشن پارٹی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے قومی نائب صدر شیوانند تیواری اور ریاستی صدر رام چندر پوربے سمیت کئی این ڈی اے مخالف لیڈروں نے شرکت کی۔
این ڈی اے سے کشواہا کی دوری کی بات کی جائے تو اس کا امکان سیاسی حلقوں میں اسی وقت سے ظاہر کیا جا رہا تھا جب گاندھی میدان سے انھوں نے نتیش کی تعلیمی پالیسی کو کٹہرے میں کھڑا کیا تھا۔ اس کے بعد نتیش کے ہیومن چین کے ٹھیک دسویں دن انھوں نے بدحال تعلیمی نظام کے خلاف اپنا ایک الگ ہیومن چین تیار کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان نے کشواہا کی این ڈی اے سے دوری کی قیاس آرائیوں کو مضبوطی عطا کی تھی اور آج تو اس پر ایک مہر سی لگ گئی ہے۔
جہاں تک کشواہا کے ہیومن چین پروگرام کی بات ہے، اس میں سابق وزیر اعلیٰ رابڑی دیوی کے بھائی سادھو یادو نے شرکت کر کے ایک نیا رخ دے دیا۔ خبر تو یہاں تک ہے کہ سادھو (جو اس وقت غریب جنتا دل سیکولر پارٹی کے صدر ہیں) کشواہا کی پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں۔ کشواہا نے بھی ہیومن چین میں شامل ہونے کے لیے اپنے نئے دوست کا شکریہ ادا کیا۔ کشواہا سے جب ’قومی آواز‘ نے یہ پوچھا کہ اپوزیشن پارٹیوں کے اہم لیڈران کی ہیومن چین میں شرکت کے کیا معنی ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’’اس پروگرام میں شامل ہونے کے لیے سبھی پارٹیوں کو عام دعوت دی گئی تھی اس لیے پروگرام کو کسی سیاسی چشمے سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔‘‘ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ ہیومن چین کی کیا ضرور ت تھی اور این ڈی اے کے لیڈران اس میں کیوں شامل نہیں ہوئے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’’حکومت اپنا کام کر رہی ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اس پروگرام سے اس کام کی رفتار میں تیزی آئے۔ این ڈی اے کے لیڈران نے ہیومن چین کے اس پروگرام میں شرکت نہیں کی لیکن این ڈی اے کے کئی کارکنان کی شرکت ظاہر کرتی ہے کہ میں صحیح سمت میں جا رہا ہوں۔‘‘
اس پروگرام کے بعد آر جے ڈی لیڈروں میں ایک جوش کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پارٹی کے ریاستی صدر ڈاکٹر رام چندر پوربے اور قومی نائب صدر شیوانند تیواری نے پروگرام کے بعد اس کی کامیابی کے لیے اوپیندر کشواہا کو مبارکباد بھی پیش کی۔ جب ’قومی آواز‘ نے شیوانند تیواری سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا کشواہا اور این ڈی اے میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا؟ تو انھوں واضح لفظوں میں کچھ بھی کہنے سے پرہیز کیا، لیکن اس سے انکار بھی نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں پیشین گوئی تو نہیں کر سکتا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کیا ہوگا۔‘‘
اوپیندر کشواہا کے ہیومن چین میں شامل نہ ہونے سے متعلق وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یو نے پوری طرح سے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بہار کی سیاست پر کھل کر بیان دینے والے جنتا دل یو کے ترجمان سنجے سنگھ بھی کچھ کہنے سے بچ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بی جے پی نے اپنی ناراضگی کھل کر ضرور ظاہر کر دی ہے۔ بی جے پی یوتھ وِنگ کے ریاستی صدر اور بانکی پور کے ممبر اسمبلی نتن نوین نے سخت لفظوں میں کشواہا کی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ’’تعلیم اور اس کے معیار میں بہتری دھیرے دھیرے مکمل ہونے والا عمل ہے، یہ فوراً ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ ہم اس میں اصلاح کا کام ضرور کریں گے۔‘‘ جب نوین سے یہ سوال کیا گیا کہ این ڈی اے کے ساتھ ہونے کے باوجود کشواہا کو این ڈی اے کی لائن سے الگ کھڑے ہو کر پروگرام کیوں کرنا پڑا، کیا ان کی بات نہیں سنی جا رہی تھی؟ اس پر انھوں نے کہا کہ ’’میں امید کرتا ہوں کہ اوپیندر کشواہا تعلیم سے متعلق پروگراموں کو آگے بڑھائیں گے، صرف بیداری مہم چلانے سے کچھ نہیں ہوگا۔‘‘
دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ہیومن چین پروگرام سے ایک دن پہلے ہی آر جے ڈی کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر رگھوونش پرساد سنگھ نے کہا تھا کہ کشواہا آر جے ڈی کے ساتھ ہاتھ ملائیں گے۔ رگھوونش پرساد نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ کشواہا کی پیش قدمی اچھی ہے اور وہ اسی طرح اچھے کام کرتے ہوئے دھیرے دھیرے آر جے ڈی کے ساتھ آ جائیں گے۔ آج جب کشواہا کے ساتھ آر جے ڈی کے کئی معزز لیڈران ایک ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے تھے تو رگھوونش پرساد کے اس بیان میں حقیقت صاف نظر آ رہی تھی، بلکہ یوں کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ ان کے بیان پر مہر لگ چکی ہے۔ اب تو بس یہ دیکھنا باقی ہے کہ کشواہا این ڈی اے کو خیرباد کہنے کا اعلان کب کرتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔