لوک سبھا انتخابات سے قبل BJP کو پھر لگا جھٹکا، AGP نے NDA کو کہا الوداع
لوک سبھا انتخابات کے نزدیک آنے کے ساتھ ہی این ڈی اے اتحاد میں شامل پارٹیاں دھیرے دھیرے بی جے پی سے دوری اختیار کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ آسام میں اے جی پی نے بھی اس اتحاد کو خیر باد کہہ دیا ہے۔
جیسے جیسے ملک میں عام انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں، ویسے ویسے این ڈی اے اتحاد میں شامل بی جے پی کی ساتھی پارٹیاں اس کا ساتھ چھوڑتی نظر آ رہی ہیں۔ گزشتہ سال کے آخری مہینے میں بہار کی آر ایل ایس پی سے ملے جھٹکے سے بی جے پی ابھی باہر بھی نہیں نکل پائی تھی کہ اب آسام میں اس کی پرانی ساتھی پارٹی آسام گن پریشد (اے جی پی) نے رشتہ منقطع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اے جی پی کے صدر اتل بورا نے پیر کے روز دہلی میں وزیر داخلہ راج ناتھ سے ملاقات کے بعد بی جے پی سے اتحاد ختم کرنے کا اعلان کیا۔
قابل غور ہے کہ اے جی پی سربراہ اتل بورا آسام میں نافذ این آر سی معاملہ پر بی جے پی کی قیادت والی مودی حکومت سے ناراض چل رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اے جی پی نے یہ قدم پی ایم نریندر مودی کے آسام میں دیے اس بیان کے ٹھیک ایک دن بعد اٹھایا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ان کی حکومت مجوزہ شہریت (ترمیمی) بل 2016 کو پارلیمنٹ میں منظوری دلانے کے لیے کام کر رہی ہے اور اس میں ہندوستان کے ایک بھی شہری کو چھوڑا نہیں جائے گا۔
اس سے قبل بھی اے جی پی نے شہریت بل کی یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ اس سے ان کی ثقافتی شناخت کو نقصان پہنچے گا۔ پارٹی صدر اتل بورا نے بی جے پی صدر امت شاہ کو خط لکھ کر اس بل پر اعتراض ظاہر کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’آسام سمجھوتہ، شہریت بل اور دیگر ایشوز پر ایک مشترکہ مشورہ کے ساتھ کام کرنے کی بنیاد پر بی جے پی سے اتحاد کرنے کا فیصلہ لیا گیا تھا۔ لیکن مودی حکومت نے شہریت ترمیمی بل 2016 کو پارلیمنٹ میں پیش کر اس کی خلاف ورزی کی ہے۔‘‘
دوسری طرف پی ایم مودی کے گزشتہ دنوں آسام میں دیے اس بیان کی مخالفت میں ’کرشک مکتی سنگرام سمیتی‘ (کے ایم ایس ایس) کی قیادت میں تقریباً 70 تنظیموں نے جگہ جگہ نمائش کر اے جی پی پر دباؤ ڈالا کہ وہ بی جے پی کے ساتھ اپنا اتحاد ختم کر دے۔ اس کے بعد آج اے جی پی صدر نے دہلی میں اتحاد ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
غور طلب ہے کہ پیر کے روز کیے گئے اعلان کے ساتھ ہی اب اے جی پی بھی ان اہم علاقائی پارٹیوں کی فہرست میں شامل ہو گئی ہے جنھوں نے حال کے دنوں میں مودی حکومت کی پالیسیوں اور خاص نظریاتی فیصلوں کے سبب اتحاد سے اپنے آپ کو الگ کر لیا ہے۔ گزشتہ سال سب سے پہلے طویل مدت سے این ڈی اے کے معاون رہے چندرا بابو نائیڈو کی ٹی ڈی پی نے اتحاد سے رشتہ توڑ لیا تھا اور سال کے آخر میں بہار کی آر ایل ایس پی نے بھی این ڈی اے سے اتحاد توڑنے کا اعلان کر بی جے پی کو مشکل میں ڈال دیا۔ علاوہ ازیں مرکز اور مہاراشٹر حکومت میں شامل شیو سینا کے لگاتار باغیانہ روش کو دیکھتے ہوئے قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ ساتھی سے زیادہ ناقد کے کردار میں رہنے والی اس پارٹی سے بھی بی جے پی کو کبھی بھی جھٹکا لگ سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔