ٹی ڈی پی کے بعد گورکھا جن مکتی مورچہ کا بھی این ڈی اے کو طلاق
ٹی ڈی پی کے بعد گورکھا جن مکتی مورچہ نے بھی این ڈی اے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ این ڈی اے کے لیے ایک مہینے میں دوسرا دھچکا ہے۔
نیشنل ڈیموکریٹک الائنس یعنی این ڈی اے کو مارچ کے مہینے میں دوسرا دھچکا لگا ہے۔ اس بار بری خبر مغربی بنگال سے آئی ہے جہاں گورکھا جن مکتی مورچہ یعنی جی جے ایم نے بی جے پی پر دھوکہ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے این ڈی اے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
ایک انگریزی اخبار کے مطابق گورکھا جن مکتی مورچہ نے ہفتہ کے روز این ڈی اے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا۔ جی جے ایم لیڈر ایل ایم لاما نے بی جے پی پر گورکھا کو دھوکہ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب ان کی پارٹی کا بی جے پی سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ لاما نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کہا کرتے تھے کہ گورکھا لوگوں کا جو خواب ہے وہ ہمارا خواب ہے، لیکن دلیپ گھوش کے بیان نے وزیر اعظم کے اس بیان اور بی جے پی کی نیت پر سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ دلیپ گھوش مغربی بنگال بی جے پی کے صدر ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں دلیپ گھوش نے کہا تھا کہ گورکھا جن مکتی مورچہ سے بی جے پی کا صرف انتخابی اتحاد ہے۔ اس کے علاوہ اس پارٹی سے کسی بھی سیاسی ایشو پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا ہے۔ لاما نے کہا کہ دلیپ گھوش کے اس بیان سے گورکھا طبقہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بی جے پی کے لوگ نہ تو گورکھا کے مسائل کے تئیں حساس ہیں اور نہ ہی سنجیدہ۔
لاما نے کہا کہ ہم نے اتحاد کا فرض نبھاتے ہوئے مغربی بنگال کی دارجیلنگ پارلیمانی سیٹ دو بار بی جے پی کو تحفہ میں دے دیا۔ 2009 میں یہاں سے بی جے پی کے جسونت سنگھ کو اور سال 2014 میں ایس ایس اہلووالیہ کو فتح دلائی۔ لاما نے کہا کہ دارجیلنگ سیٹ پر بی جے پی امیدوار کو کامیاب بنانے سے ہمیں امید تھی کہ بی جے پی گورکھا برادری کے مسائل کا حل نکالنے میں مدد کرے گی، لیکن بی جے پی نے ایسا نہیں کیا اور بار بار دھوکہ دیا۔ انھوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ بی جے پی کی وجہ سے ہی دارجیلنگ اور پہاڑی علاقوں میں غیر یقینی کا ماحول اور اتھل پتھل ہے۔
گورکھا طبقہ طویل مدت سے دارجیلنگ سمیت مغربی بنگال کے شمالی حصے میں پہاڑی علاقے کو الگ گورکھالینڈ ریاست بنانے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ گزشتہ سال بھی اسی مطالبہ پر جی جے ایم نے طویل مدت تک تحریک چلائی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔