رافیل سودے سے کچھ دن پہلے ہی حکومت نے بدعنوانی مخالف شق کیوں ہٹائی؟

انگریزی روزنامہ ’دی ہندو‘نے رافیل معاملہ پر ایک اور سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ حکومت نے بغیر کسی بینک گارنٹی کے اتنی بڑی رقم کیسے ادا کی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

انگریزی اخبار’دی ہندو‘ نے رافیل معاملہ میں ایک اور سنسنی خیز انکشاف کیا ہے ۔ اخبار نے شائع رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت نے 36 رافیل جنگی طیارہ کے سودے سے چند روز قبل بدعنوانی کے خلاف جرمانے کی کئی اہم شقیں ہٹا دی تھیں اور ساتھ میں اس معاہدے میں ادائیگی کرنے کے تعلق سے اقتصادی مشیر کی سفارشات کو بھی نظر انداز کر دیا تھا ۔ ’دی ہندو‘ کی اس خبر سے ایک مرتبہ پھر حزب اختلاف کے ان دعووں کو تقویت ملتی ہے کہ رافیل معاہدے میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوئی ہے۔

بدعنوانی کی شق کے اہم نکات ہٹائے جانے کی خبر نے مودی حکومت کے لئے نئی پریشانیاں پیدا کر دی ہیں کیونکہ سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں مودی کی قیادت والی بی جے پی نے بدعنوانی کو ایک بڑا ایشو بنایا تھا اور اب تقریباً دو ماہ بعد عام انتخابات ہونے والے ہیں اور عوام بدعنوانی کے اس پہلو پر سوال ضرور پوچھیں گے۔ واضح رہے کہ ابھی چند روز پہلے ’دی ہندو‘نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں اس بات انکشاف کیا تھا کہ وزارت دفاع کے افسران نے اس بات پر اعتراض جتایا تھا کہ وزیر اعظم کا دفتر فرانس کی حکومت کے ساتھ اپنے طور پر کیوں بات کر رہا ہے اور اس سے جس ٹیم کو سودے پر بات کرنی ہے اس کی حیثیت متاثر ہوتی ہے۔

اخبار نے اپنی رپورٹ میں شائع کیا ہے کہ 58000 کروڑ روپے کے رافیل جنگی طیارہ کے سودے پر دستخط کئے جانے سے قبل اعلی سطحی سیاسی مداخلت کے بعد ڈفینس پروکیورمنٹ پروسیجر (ڈی پی پی ) کی شق ’’غیر ضروری اثر ڈالنا، ایجنٹس یا ایجنسی کمیشن اور دسالٹ ایویشن اور ایم بی ڈی اے فرانس کی کمپنیوں کے اکاؤنٹ تک رسائی جیسی شقوں کو ہندوستانی حکومت نے پروٹوکالس کے تبادلہ میں ہٹا دیا تھا۔

واضح رہے کہ اس سودے میں دسالٹ ایویشن رافیل جہاز پیکیج کی سپلائی کرنے والی کمپنی ہے اور ایم بی ڈی اے فرانس ہتھیار سپلائی کرنے والی کمپنی ہے ۔ یہ فیصلہ ڈیفنس ایکویزیشن کاؤنسل (ڈی اے سی) کی میٹنگ میں ہوا تھا جس کی صدارت اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے کی تھی اور یہ میٹنگ 2016 ستمبر میں ہوئی تھی۔ یہ میٹنگ کابینہ کمیٹی برائے سلامتی (سی سی ایس) کی 24 اگست 2016 کی میٹنگ کے بعد ہوئی تھی جس میں اس کو منظوری دے دی گئی تھی اور اس میٹنگ کی صدارت وزیر اعظم نریندر مودی نے کی تھی۔

’دی ہندو‘ کی شائع رپورٹ کے مطابق اس سودے پر بات چیت کرنے والی ٹیم کے تین ارکان ایم پی سنگھ، مشیر (قیمت)، اے آر سولے ، فائنانشیل منیجر(ایئر) اور راجیو ورما، جوائنت سکریٹری اور ایکویزیشن منیجر (ایئر) نے ان شقوں کے ہٹائے جانے کی سخت مخالفت کی تھی لیکن ان کی مخا لفت کو نظر انداز کر دیا گیا تھا ۔ انہوں نے اپنے اعتراض میں کہا تھا کہ معاہدہ دسالٹ ایویشن اور ایم بی ڈی اے فرانس جیسی کمرشیل سپلائر کے ساتھ ہے اور وہ اس سودے میں سیدھے شامل ہیں، ایسی صورت میں ان شقوں کا ہٹایا جانا سمجھداری نہیں ہے۔

واضح رہے کہ اس سودے میں سورن یا بینک گارنٹی کو چھوڑ کر حکومت نے لیٹر آف کمفرٹ پر انحصار کیا تھا اور فرانس صدر اس لیٹر آف کمفرٹ کے ذریعہ کسی طرح بھی کسی چیز کے لئے پابند یا ذمہ دار نہیں ہوتے۔ سابق وزیر خزانہ پی چدامبرم نے اس تعلق سے ٹویٹ کیا ہے کہ ’’کوئی سورن گانٹی نہیں ، کوئی بینک گارنٹی نہیں ، کوئی اسکرو اکاؤنٹ نہیں ، پھر بھی پیشگی کے طور پر ایک بڑی رقم ادا کر دی گئی ۔ غیر ضروری اثر ڈالنے کے لئے کوئی جرمانہ کی شرط نہیں، ایجنسی کمیشن کے لئے کوئی شق نہیں ، سپلائروں کے اکاؤنٹ تک رسائی کے لئے کوئی شق نہیں اور دسالٹ ہنستے ہوئے بینک جاتا ہے‘‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 Feb 2019, 11:09 AM