اتحاد اور مشترکہ اپوزیشن سے بی جے پی میں دہشت، اب مندر-مسجد اور گائے کا ہی سہارا... آکار پٹیل

مہاراشٹر، گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں بی جے پی کو کم از کم 100 سیٹوں کا نقصان ہوگا، جس کی خانہ پری ملک کے کسی حصہ سے نہیں ہوگی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آکار پٹیل

بی جے پی کے خلاف ملک بھر میں پیدا ہو رہے سیاسی اتحادوں کا کیا اثر ہوگا؟ سیدھا سا جواب ہے کہ اس سے 2019 میں بی جے پی کے ہاتھ کم سیٹیں ہاتھ لگیں گی۔ ملک کے انتخابی اتحادوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جب جب مشترکہ حزب اختلاف میدان میں اترا ہے، برسراقتدار جماعت کو خاطر خواہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

آزادی کے پانچ عشروں بعد تک کانگریس کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 1977 اور 1989 کی طرح جب جب مشترکہ حزب اختلاف سامنے آیا اس نے بڑی پارٹی کو نقصان پہنچایا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں ذات پر مبنی ہیں، اتحاد ان کے حق میں کام کرتے ہیں اور وہ اپنا ووٹ شیئر بڑھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔

اس سال مئی میں ہونے جا رہے عام انتخابات کے نتائج میں یہ نظر آئے گا یا نہیں یہ ابھی سے نہیں کہا جاسکتا۔ ہو سکتا ہے کہ بی جے پی اقتدار میں واپسی کرنے میں کامیاب رہے، پھر بھی اسے اتحاد کی بیساکھی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لیکن 2014 کے مقابلہ اسے کہیں زیادہ مضبوط سیاسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ تو طے ہے۔

امکان ہے کہ مہاراشٹر، گجرات، راجستھان اور اتر پردیش میں بی جے پی کو کم از کم 100 سیٹوں کا نقصان ہوگا اور اس نقصان کی خانہ پری ملک کے کسی دوسرے حصہ سے نہیں ہو پائے گی۔ مثلاً اسے کیرلہ اور مغربی بنگال میں کچھ کامیابی مل سکتی ہے لیکن وہ پھر بھی کل نقصان کی خانہ پری نہیں کر پائے گی۔ ہمیں اس کا اندازہ بھی لگ جائے گا جب اوپینین پول آنا شروع ہوں گے۔

ایک اور حقیقت ہے وہ یہ کہ بی جے پی میں اندر خانہ بہت کچھ ہو رہا ہے اور اتحاد اور بی جے پی سے مودی-شاہ کی پکڑ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ بی جے پی کی ایک انوکھی بات یہ ہے کہ وہ خود کو ایک نظریہ والی پارٹی کہتی ہے۔ جبکہ کانگریس نظریات کی نہیں بلکہ اقدار والی پارٹی ہے۔ جیسے سیکولرازم اس کا ایک اصول ہے۔ اسی طرح اعتدال پسندی بھی اس کی پالیسیوں کا اہم جز ہے۔ پھر بھی کانگریس کا کسی ایک موضوع کے حوالہ سے کوئی طے شدہ خیال یا نظریہ نہیں ہے۔

اسی طرح بی ایس پی، ایس پی، ترنمول کانگریس اور بی جے ڈی جیسی پارٹیوں کا بھی کوئی خاص نظریہ نہیں ہے۔ سماجوادی پارٹی خود کو لوہیا نواز قرار دیتی ہے لیکن سماجوادی پارٹی میں ایسے بہت سے کارکنان ہوں گے جنہیں لوہیا نوازی کے معنی تک معلوم نہیں ہوں گے۔ لیفٹ پارٹیاں کہیں گی کہ وہ مارکسی یا پھر لینن نواز ہیں لیکن جب وہ کسی ریاست میں اقتدار میں ہوتے ہیں تو وہ اس کی تشریح نہیں کر پاتے۔ کیرالہ کی مثال لیں، سی پی ایم کی قیادت والے ایل ڈی ایف اور کانگریس کی قیادت والے یو ڈی ایف یعنی مشترکہ محاذوں میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔

لیکن بی جے پی خود کے ایک خاص نظریہ کا حامل ہونے کا دعوی کرتی ہے اور وہ نظریہ ہے ہندوتوا کا نظریہ۔ ایسے میں جب پارٹی کمزور ہوتی ہے جیسا کہ حال کے مہینوں میں صاف ہوا ہے، تو کیا ہوا ہوگا؟ ظاہر ہے اس کا کچھ نہ کچھ تو اثر بی جے پی پر پڑے گا ہی۔

اولین بات تو یہ کہ غیریقینیت کے اس دور میں نظریہ والی پارٹیوں کا زوال لگ بھگ طے ہوتا ہے۔ بی جے پی کے معاملہ میں بات یہ ہے کہ پارٹی اپنی اسی اسکرپٹ پر قائم رہنے والی ہے جسے اس کے حامی سمجھتے ہیں یعنی مندر، مورتیاں، مسلم اور گائے۔ بی جے پی اپنے سیاسی حریفوں سے علیحدہ ہے اور یہ وہ ایشوز ہیں جن پر وہ بھروسہ کرتی ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بی جے پی اپنی قیادت کو بلندی تک لے جائے گی۔ ایسے میں پارٹی کے اندر ہی دوسری قطار کے رہنما خود کو آگے بڑھانے کی امید میں کوشش کریں گے کہ اس غیر یقینی ماحول میں آگے جاکر ان کے لئے موقع پیدا ہوں۔ ان تمام حالات میں سب سے زیادہ پریشان مودی اور شاہ ہی ہوں گے۔ اب یہ دونوں ترقی اور شمولیت کی باتیں کم کریں گے اور انتہا پسندی کی جانب زیادہ بڑھیں گے۔ اس لئے اب ایسے کسی بھی ایشو پر بات نہیں ہو رہی ہے جو 2014 میں سنائی دے رہے تھے۔ ان پر زبردست دباؤ ہے اور آنے والے دنوں میں دباؤ مزید بڑھنے کا امکان ہے۔

مودی اور شاہ جیسے جیسے انتہا پسندی کی طرف رُخ کریں گے نتن گڈکری جیسے وسط پسند رہنماؤں کو اپنی غیر ہندوتوا والی شبیہ بنانے کا موقع ملے گا۔ لیکن دونوں ہی جانب چوک جانے کا خطرہ برابر ہے۔ ابھی دیکھیں تو پارٹی چند لوگوں کے آس پاس ہی مرکوز ہے اور قومی سطح پر انتہائی غیر جمہوری ہے لیکن شمولیت اور ترقی تو بی جے کا کلیدی ہتھیار ہے ہی نہیں، اس لئے آنے والے وقت میں بی جے پی کا اہم ہتھیار دھرم اور قوم پرستی ہونے والا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔