کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے دی ضمانت، جیل سے رِہائی کا راستہ صاف

الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ صدیق کپن کو ضمانت دیے جانے کے فیصلہ کے بعد دو سال سے جیل میں بند کپن کے باہر نکلنے کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔

کیرالہ سے تعلق رکھنے والے صحافی صدیق کپن
کیرالہ سے تعلق رکھنے والے صحافی صدیق کپن
user

قومی آواز بیورو

اتر پردیش کے مشہور ہاتھرس واقعہ کی رپورٹنگ کرنے جاتے وقت متھرا سے گرفتار کیے گئے صحافی کپن صدیقی کپن کو بڑی راحت دیتے ہوئے آج الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی۔ کپن کو ای ڈی کے منی لانڈرنگ معاملے میں ضمانت ملی ہے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے صدیق کپن کے پورے دو سال بعد جیل سے باہر آنے کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔

آج ضمانت سے متعلق حکم جسٹس دنیش کمار سنگھ نے جاری کیا، جبکہ کپن کی طرف سے وکیل ایشان بگھیل اور محمد خالد پیش ہوئے تھے۔ اس مہینے کے شروع میں لکھنؤ کی ایک عدالت نے پی ایم ایل اے معاملے میں کپن اور چھ دیگر کے خلاف الزام طے کیے تھے۔ ای ڈی نے گزشتہ سال فروری میں ملزمین کے خلاف استغاثہ کی شکایت (چارج شیٹ کے برابر) داخل کی تھی۔ کپن نے لکھنؤ کی ایک عدالت کے ذریعہ ضمانت نامنظور کیے جانے کے بعد ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔


اس سے قبل 9 ستمبر کو سپریم کورٹ نے صدیق کپن کو ضمانت دے دی تھی۔ حالانکہ عدالت عظمیٰ نے کپن کو مشروط ضمانت دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کپن کو اتر پردیش کی جیل سے چھوٹنے کے بعد آئندہ 6 ہفتوں تک دہلی میں رہنا ہوگا اور اس کے بعد وہ کیرالہ جا سکیں گے۔ اس کے علاوہ انھیں اپنا پاسپورٹ بھی سرینڈر کرنا ہوگا اور ہر پیر کے روز انھیں پولیس تھانے میں حاضری بھی دینی ہوگی۔ سپریم کورٹ سے راحت ملنے کے بعد کپن کو منی لانڈرنگ کیس میں بھی ضمانت کی درخواست دینے کی چھوٹ مل گئی تھی۔

واضح رہے کہ کیرالہ کے صحافی کپن کو اتر پردیش پولیس نے اکتوبر 2020 میں چار لوگوں کے ساتھ متھرا سے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ ہاتھرس جا رہے تھے۔ ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کر اس کا قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ کپن پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) سے جڑے ہیں اور وہ ہاتھرس میں فساد پھیلانے کی سازش رچنے جا رہے تھے۔ کپن کے خلاف دفعہ 153اے، 295اے، 124اے، 120بی اور یو اے پی اے کے تحت کیس درج کیا گیا تھا۔ حالانکہ کپن کا دعویٰ ہے کہ وہ ہاتھرس میں خاتون کی اجتماعی عصمت دری و قتل کے بعد جائے واقعہ پر معاملے کی رپورٹنگ کرنے جا رہے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔