علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی درجہ برقرار، حتمی فیصلے کے لیے 3 رکنی بنچ تشکیل، تفصیلی وضاحت
سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی درجہ برقرار رکھا، تاہم حتمی فیصلہ 3 رکنی بنچ کرے گی۔ دریں اثنا، عدالت عظمیٰ نے 1967 کے عزیز باشا معاملہ پر سنائے گئے فیصلے کو بھی رد کر دیا
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کو اقلیتی درجہ دینے کے معاملے میں سپریم کورٹ کی سات رکنی بنچ کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔ یہ فیصلہ متفقہ نہیں بلکہ 4:3 کے تناسب سنایا گیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی)، جسٹس کھنہ، جسٹس پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا نے اکثریتی فیصلے کے حق میں رائے دی، جبکہ جسٹس سوریہ کانت، جسٹس دیپانکر دتہ اور جسٹس ایس سی شرما نے اس سے اختلاف کیا۔
اقلیتی درجہ برقرار
سپریم کورٹ نے فی الحال اے ایم یو کا اقلیتی درجہ برقرار رکھا ہے، مگر یہ بھی واضح کیا کہ اس پر ایک نئی بنچ ہدایات تیار کرے گی۔ سی جے آئی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایک تین رکنی مستقل بنچ اے ایم یو کے اقلیتی درجے پر حتمی فیصلہ دے گی۔ یہ بنچ سات رکنی بنچ کے فیصلے کے نکات اور معیارات کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی۔
نئی بنچ تیار کرے گی ہدایات
نئی بنچ اقلیتی اداروں معاملہ میں ان کے قیام اور انتظام کے اصول پر بھی ہدایات مرتب کرے گی۔ سات رکنی بنچ کے فیصلے کی روشنی میں نئی بنچ فیصلہ کرے گی کہ آیا اے ایم یو واقعی اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں۔ دراصل، سپریم کورٹ نے ابھی تک یہ طے نہیں کیا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں۔
عزیز باشا معاملہ میں دیا گیا فیصلہ منسوخ
1967 کے ایس عزیز باشا کیس میں عدالت نے کہا تھا کہ کسی ادارے کو اقلیتی درجہ اس وقت ملے گا جب اسے اسی کمیونٹی کے افراد نے قائم کیا ہو۔ اے ایم یو کے معاملے میں دلیل یہ دی گئی تھی کہ چونکہ یہ ادارہ مسلمانوں نے نہیں بلکہ ایک پارلیمانی قانون کے تحت بنایا گیا تھا، اس لیے اسے اقلیتی ادارہ نہیں مانا جا سکتا۔ جمعہ کو سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو رد کر دیا۔
حکومت اقلیتی اداروں کو ریگولیٹ کر سکتی ہے
فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 30 میں دیے گئے حقوق مکمل طور پر غیر محدود نہیں ہیں۔ مذہبی کمیونٹیز کو ادارے قائم کرنے کا حق ضرور ہے، مگر ان اداروں کو چلانے کا لامحدود حق نہیں ہے۔ حکومت اقلیتی اداروں کو ریگولیٹ کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے 4:3 کے تناسب سے 1967 کے فیصلے کو رد کر دیا، جس میں اے ایم یو کو اقلیتی درجہ دینے سے انکار کیا گیا تھا۔
وکیل کے مطابق اے ایم یو کے لیے راحت
اس فیصلے پر وکیل شادان فراست نے اے ایم یو کے لیے بڑی راحت قرار دیا۔ ان کے مطابق فیصلے میں طے کیے گئے معیارات کی وجہ سے آگے کا کیس مثبت رہے گا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ قانونی طور پر اسے برطانوی قانون ساز نے قائم کیا، مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔
قانونی انکارپوریشن اور ادارے کے قیام کا فرق
شادان فراست نے کہا کہ سپریم کورٹ نے یہ واضح کیا کہ قانونی انکارپوریشن (قانونی وجود) اور ادارے کا قیام الگ چیزیں ہیں۔ اس لیے کوئی اقلیتی کمیونٹی کسی ادارے کو قائم کر سکتی ہے چاہے اس نے کسی اور مدد سے اسے قانونی شکل دی ہو۔
اقلیتی درجہ کے لیے اہم پہلو
سی جے آئی نے کہا کہ ایسے ادارے جو تعلیمی کالج تھے، انہیں تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنے کا عمل ایک تعلیمی ادارہ بنانے کی پہچان ہے۔ عدالت کو ادارے کی ابتدا پر غور کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ اسے قائم کرنے کے پیچھے کس کا ارادہ تھا۔
عزیز باشا کیس میں رد کردہ فیصلہ
عزیز باشا کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ اے ایم یو اقلیتی درجہ نہیں رکھ سکتا کیونکہ اس کا قیام ایک قانون کے ذریعے ہوا۔ اب سات رکنی بنچ نے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا۔ اکثریتی فیصلے کے مطابق کوئی ادارہ صرف اس وجہ سے اپنا اقلیتی درجہ نہیں کھو سکتا کہ اسے قانون کے ذریعے بنایا گیا۔
اقلیتی درجہ کا دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے
اگر تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ادارے کی بنیاد اقلیتی کمیونٹی نے رکھی ہے تو وہ آرٹیکل 30 کے تحت اقلیتی درجہ کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر سپریم کورٹ نے یہ معاملہ ایک مستقل بنچ کے حوالے کیا ہے۔
تین رکنی بنچ کے ذریعے اہم معیارات کا تعین
سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ نہیں دیا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں، مگر تین رکنی بنچ کے لیے ایک جامع معیاری جانچ کے لیے اہم معیارات طے کیے ہیں۔ اس میں تاریخ، قیام کے حالات، انتظامی کردار وغیرہ شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے یہ واضح کر دیا کہ کسی ادارے کا قانونی وجود اس کے اقلیتی درجے کے حق سے انکار کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ ادارے کے قیام اور اس کے انتظام میں اقلیتی کمیونٹی کا کردار فیصلہ کن ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔