اکھلیش یادو نے یوپی اسمبلی میں برہمن، مسلم اور کُرمی کو اہم عہدہ دے کر سبھی کو کیا حیران!

سماجوادی پارٹی نے ماتا پرساد پانڈے کو یوپی اسمبلی میں حزب اختلاف کا لیڈر مقرر کیا ہے، جبکہ کمال اختر کو اسمبلی میں پارٹی کا چیف وہپ اور آر کے ورما کو ڈپٹی چیف وہپ بنایا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>اکھلیش یادو / آئی اے این ایس</p></div>

اکھلیش یادو / آئی اے این ایس

user

ایشلن میتھیو

سماجوادی پارٹی چیف اکھلیش یادو نے پارٹی کے تجربہ کار اور برہمن لیڈر ماتا پرساد پانڈے کو اتر پردیش اسمبلی میں حزب اختلاف کا لیڈر بنانے کا اعلان کیا ہے جس کو کئی معنوں میں اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ یہ اعلان اکھلیش یادو نے اتوار (28 جولائی) کے روز کیا۔ دراصل یہ عہدہ پہلے اکھلیش یادو کے پاس تھا، لیکن انھوں نے قنوج لوک سبھا سیٹ سے فتحیابی کے بعد کرہل اسمبلی سیٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اب جب یوپی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنانے کی بات آئی تو سماجوادی پارٹی قانون ساز پارٹی کی میٹنگ میں متفقہ طور پر ماتا پرساد پانڈے کے نام کا اعلان کیا گیا۔ اس میٹنگ کی صدارت خود اکھلیش یادو نے کی۔ اس قدم کو ایک حیرت انگیز قدم ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

مزید برآں سماجوادی پارٹی نے ایک مسلم چہرہ کمال اختر کو یوپی اسمبلی میں پارٹی کا چیف وہپ مقرر کیا ہے۔ ساتھ ہی پرتاپ گڑھ ضلع سے تعلق رکھنے والے آر کے ورما، جو کہ کرمی ذات سے تعلق رکھتے ہیں، انھیں ریاستی اسمبلی میں ڈپٹی وہپ مقرر کیا گیا ہے۔ یہ اعلان لکھنؤ میں پارٹی کے ریاستی ہیڈکوارٹر منعقد ہوئی میٹنگ کے بعد باضابطہ طور پر کیا گیا۔ میٹنگ میں سماجوادی پارٹی کے اراکین اسمبلی نے اپوزیشن کا نیا لیڈر منتخب کرنے کا اختیار اکھلیش یادو کو دیا تھا، اور یہ پیش رفت مانسون اجلاس شروع ہونے سے ٹھیک ایک دن پہلے ہوئی۔


قابل ذکر ہے کہ ماتا پرساد پانڈے دو مرتبہ یوپی اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے ہیں اور فی الحال وہ سدھارتھ نگر ضلع کے ایٹاوہ اسمبلی حلقہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس سے قبل سماجوادی پارٹی میں منوج پانڈے اہم برہمن چہرہ تھا جو کہ وہ اونچاہار اسمبلی حلقہ سے (رائے بریلی) رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ وہ سماجوادی پارٹی کے سابق چیف وہپ بھی تھے جنھوں نے رواں سال فروری میں راجیہ سبھا انتخابات کے دوران بی جے پی امیدواروں کے حق میں کراس ووٹ دیا تھا۔ بعد ازاں عین لوک سبھا انتخاب سے قبل منوج پانڈے نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

بہرحال، اب ماتا پرساد پانڈے سماجوادی پارٹی کے اہم برہمن چہرہ ہیں، اور انھیں اپوزیشن لیڈر بنا کر اکھلیش یادو نے سبھی کو حیران کر دیا ہے۔ اس قدم سے سماجوادی پارٹی نے برہمن طبقہ سے تعلق رکھنے والے اپنے حامیوں اور ووٹرس میں ایک مثبت پیغام دیا ہے اور گزشتہ کچھ ماہ میں پیدا خدشات کو بھی دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ فروری ماہ میں جب سماجوادی پارٹی کے 8 باغیوں نے راجیہ سبھا انتخاب میں کراس ووٹ کیا تھا تو ان میں منوج پانڈے، ابھے سنگھ، راکیش پرتاپ سنگھ اور ونود چترویدی بھی شامل تھے، جن کی بغاوت سے کئی طرح کے خدشات پیدا ہو گئے تھے اور سماجوادی پارٹی کو مشکلات کا سامنا تھا، لیکن اب یہ خدشات دور ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔


ذرائع کا کہنا ہے کہ اکھلیش یادو کا یہ قدم ایک طرح سے بی جے پی کے ذریعہ لگاتار اٹھائے جا رہے سوالات اور تنقید کا بہترین جواب ہے۔ دراصل سماجوادی پارٹی کو بنیادی طور پر یادو اور مسلمانوں کی پارٹی بتایا جاتا رہا ہے اور اسے برہمن مخالف کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ ماتا پرساد پانڈے کو اپوزیشن لیڈر بنانے کا فیصلہ اس الزام کو سرے سے ختم کرنے والا ہے۔ ویسے اکھلیش یادو نے 2012 سے ہی ایک حکمت عملی کے تحت کچھ ایسے قدم اٹھائے ہیں جو پارٹی کو صرف یادووں کی پارٹی ہونے سے دور کرتی ہے۔ مثلاً انھوں نے 2012 میں مغربی یوپی کے غازی آباد سے تعلق رکھنے والے ڈان ڈی پی یادو کو پارٹی میں شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس طرح دیکھا جائے تو ماتا پرساد کو یوپی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنا کر اکھلیش یادو نے برہمن ووٹ بینک کو اپنی طرف کھینچا ہے اور اس الزام کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ سماجوادی پارٹی برہمن مخالف ہے۔ اس قدم کا مقصد منوج پانڈے کے جانے سے پارٹی میں پیدا ہوئے خلا کو بھرنا بھی ہے اور ساتھ ہی مشرقی یوپی میں برہمن برادری کے درمیان ماتا پرساد کی گرفت سے فائدہ اٹھانا بھی ہے۔ ویسے بھی اتر پردیش میں فی الحال برہمنوں میں یوگی حکومت کے خلاف زبردست غصہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف تقرریوں میں ٹھاکروں (جو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ذات ہے) کو ترجیح دی جا رہی ہے۔


یوپی اسمبلی میں حزب اختلاف لیڈر کے طور پر مشہور برہمن شخصیت ماتا پرساد پانڈے کا انتخاب غیر متوقع بتایا جا رہا ہے، کیونکہ او بی سی اور ایس سی طبقہ کے کئی سینئر لیڈران بھی اس عہدے کے لیے امیدوار تھے۔ حالانکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اکھلیش یادو شروع سے ہی ماتا پرساد پانڈے کو حزب اختلاف کا قائد بنانے کے حق میں تھے۔ گزشتہ ماہ شیوپال یادو، اندرجیت سروج (پاسی دلت)، رامچل راجبھر (ایس سی)، طوفانی سروج (پاسی دلت) اور ماتا پرساد پانڈے کے نام اپوزیشن لیڈر کے طور پر سامنے آئے تھے۔ اکھلیش یادو نے ان میں سے ماتا پرساد پانڈے کے نام پر مہر لگا دی اور اس کے ساتھ ہی دوسرے دعویداروں کے درمیان ناراضگی کو بھی بے اثر کر دیا۔ ایسا اس لیے کیونکہ دیگر کوئی بھی امیدوار اسمبلی میں سینئرٹی اور تجربہ کے حساب سے ماتا پرساد پانڈے کے برابر نہیں۔ ماتا پرساد پانڈے کو آئینی امور میں بھی باشعور اور مضبوط سمجھا جاتا ہے۔

یوپی اسمبلی میں ایک برہمن کے ساتھ ساتھ ایک مسلم اور کرمی کی تقرری کو اونچی ذات کے ووٹرس میں پارٹی گرفت کو مضبوط کرنے کی کوشش بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ اکھلیش یادو اس کے ساتھ ساتھ پی ڈی اے (پچھڑا، دلت اور الپ سنکھیک) کو بھی ترجیح دے رہے ہیں جس نے لوک سبھا انتخاب 2024 میں پارٹی کو مضبوطی کے ساتھ 37 سیٹیں دلائی تھیں۔ قابل ذکر ہے کہ یہ ریاست میں بی جے پی کو حاصل 33 سیٹوں سے زیادہ ہے۔ کچھ خبروں کے مطابق سماجوادی پارٹی کے قومی سکریٹری اور چیف ترجمان راجندر چودھری کا کہنا ہے کہ ماتا پرساد پانڈے کی تقرری پی ڈی اے کی حکمت عملی کے مطابق ہے، جس میں اعلیٰ ذات پر توجہ مرکوز کرنے کا عمل بھی شامل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔