اکبر لنچنگ: مہاپنچایت کا فیصلہ، رکن اسمبلی آہوجہ کے خلاف معاملہ درج ہو
رکبر خان عرف اکبر کی موب لنچنگ کے بعد میوات کا ایک بڑا طبقہ بی جے پی-آر ایس ایس کے خلاف صف آرا ہو چکا ہے اور مہلوک کے گھر والوں کو انصاف دلانے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گیا ہے۔
ایک عشرہ قبل راجستھان کے رام گڑھ علاقے میں فیروز پور جھرکا ڈویژن کے کولگاؤں باشندہ رکبر عرف اکبر کی مبینہ گئو رکشکوں کے ذریعہ قتل کیے جانے کے معاملے میں 29 جولائی کو اسی گاؤں کے اسکول میں ایک مہاپنچایت کا انعقاد ہوا۔ اس مہاپنچایت کی صدارت ممبر پارلیمنٹ علی انور انصاری نے کی جب کہ نظامت دوہا کے سرپنچ لیکھ راج نے انجام دیئے۔ پنچایت میں ہریانہ، راجستھان، دہلی، اتر پردیش سے کثیر تعداد میں سیاسی لیڈر، سماجی کارکن، نوجوان اور ہندو-مسلم سماج کے لوگوں نے حصہ لیا۔
تقریباً چار گھنٹے تک چلی اس مہاپنچایت میں ہندو-مسلم طبقہ کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور اس بات کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا کہ راجستھان اور میوات میں رہنے والے ہندو-مسلم کا بھائی چارہ قائم رکھنے اور فاشسٹ طاقتوں کو منھ توڑ جواب دینے کی ترکیب تلاش کی جائے گی۔ مہاپنچایت میں آٹھ مطالبات پر اتفاق رائے بھی قائم ہوا اور میڈیا کی معرفت یہ مطالبات ایک عرضداشت کی شکل میں ہریانہ اور راجستھان کے وزیر اعلیٰ کو بھیجےگئے۔ مہاپنچایت میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ اکبر قتل معاملہ کی سپریم کورٹ کے سیٹنگ جج کے ذریعہ جانچ کرائی جائے۔
میڈیا کے توسط سے حکومت راجستھان کو بھیجی گئی عرضداشت میں پیش نکات اس طرح ہیں:
- میوات میں پھر سے بھائی چارہ قائم کر فاشسٹ طاقتوں کو منھ توڑ جواب دینے کی ترکیب تلاش کی جائے جس سے آئندہ ایسے واقعات پیش نہ آئیں۔
- متاثرہ فیملی کے بچوں کو راجستھان حکومت 50 لاکھ روپے معاوضہ دے۔
- موب لنچنگ کے شکار کی بیوہ کو سرکاری ملازمت ملے اور بچوں کے جوان ہونے تک ان کی تعلیم کا خرچ اٹھائے۔
- سازش کے قصوروار نول کشور اور گیان دیو آہوجہ کو ملزم بنا کر فوراً گرفتار کیا جائے۔
- رکبر قتل معاملے کے اصل اور بقیہ قصورواروں کو فوراً گرفتار کیا جائے۔
- تفتیش کے نام پر متاثرہ فیملی اور گواہوں کو پولس تنگ نہ کرے اور تفتیش کے وقت ان کے ساتھ رکبر قتل انصاف کمیٹی کے اراکین کو بھی رکھا جائے۔
- کیس کے اہم گواہ اسلم کا بیان لینے کے لیے راجستھان پولس اور حکومت کے ذریعہ تشکیل جانچ ٹیم الور نہ بلا کر فیروز پور جھرکا آ کر بیان درج کرے۔
مہاپنچایت میں لنچنگ کے بڑھتے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ممبر پارلیمنٹ علی انور انصاری نے کہا کہ اس سے ملک کی سالمیت اور اتحاد کے ساتھ ساتھ آئین کو بھی خطرہ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’بی جے پی جیسی پارٹی ایسے واقعات کے ذریعہ مذہبی منافرت پیدا کر کے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ برسرعام قتل کرنے والے ملزمین کو بی جے پی لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ پھول مالا سے استقبال کر کے قانون کا مذاق بناتے ہیں اور ایسے واقعات کو فروغ دینے کے لیے فضا قائم کرتے ہیں۔‘‘ علی انور نے بی جے پی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’جب سے ملک میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے اس وقت سے مسلم ہی نہیں، دلت سماج کے لوگوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مثلاً، گجرات میں مری ہوئی گائے کی کھال نکالنے پر دلت سماج کے لوگوں کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا۔‘‘
مہاپنچایت میں’سوراج انڈیا‘ کے قومی کنوینر یوگیندر یادو نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر انھوں نے مشورہ دیا کہ 15 دن بعد عیدالاضحی کا تہوار آ رہا ہے۔ ایسے میں ہندو-مسلم طبقہ کو چاہیے کہ مہلوک رکبر کے گاؤں سے جہاں اسے مارا گیا تھا، وہاں تک پیدل مارچ کرے اور ان کے گھر والوں کو گائے کا تحفہ پیش کرے۔ انھوں نے کہا کہ رکبر کی قانونی لڑائی کے لیے وہ جے پور سے لے کر دہلی تک لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ یوگیندر یادو واضح لفظوں میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’آج ملک میں مسلمانوں کے خلاف ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے جیسے کہ مسلمان یہاں کے کرایہ دار ہوں۔ حالانکہ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ملک کی روح مر گئی، بلکہ غنڈوں کا راج ضرور قائم ہو گیا ہے جو سیکولر ملک میں زیادہ دن نہیں چل سکتا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔