لکھنؤ یونیورسٹی میں آر ایس ایس کی تقریب پر طلبا یونین برہم

طالب علموں کا کہنا ہے کہ 24 مارچ کو یونیورسٹی کیمپس میں ہندوتوا طاقتوں کا پروگرام مخصوص نظریہ کو فروغ دینے کے لیے ہے جس سے یہاں کی فضا زہر آلود ہوگی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

لکھنؤ یونیورسٹی میں آر ایس ایس کے ذریعہ 24 مارچ کو منعقد ہونے والی تقریب تنازعات کی شکار ہو گئی ہے۔ اس تقریب کے خلاف یونیورسٹی میں آل انڈیا اسٹوڈنٹ ایسو سی ایشن (آئیسا) اور لیفٹ اسٹوڈنٹ یونین کے طلبا نے محاذ آرائی شروع کر دی ہے۔ انھوں نے یونیورسٹی انتظامیہ پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ کیمپس میں بھگواکاری کو فروغ دے رہی ہے جو یونیورسٹی کی فضا کو زہر آلود کرے گی۔

آئیسا کے ضلع سکریٹری نتن راج کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ کیمپس میں یونین بجٹ پر ایک تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ لیا گیا تھا لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ نتن راج کا سوال ہے کہ ہماری تقریب کو منع کرنے والی انتظامیہ نے کیمپس کا آڈیٹوریم آر ایس ایس کو کس طرح فراہم کر دیا۔ انھوں نے بھگوا بریگیڈ کے ذریعہ ہندی نئے سال کے موقع پر منعقد کی جا رہی اس تقریب کی پرزور مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اس طرح کی تقریب کی اجازت یونیورسٹی انتظامیہ کو نہیں دینی چاہیے تھی کیونکہ اس سے یونیورسٹی کی روایت کو نقصان پہنچے گا۔‘‘ نتن راج نے مزید کہا کہ ’’یونیورسٹی میں تعلیم و تعلم کو فروغ دینے کا کام ہوتا ہے نہ کہ کسی نظریہ کی تشہیر و توسیع کا۔‘‘

اس پورے معاملے میں لکھنؤ یونیورسٹی کے ترجمان این کے پانڈے نے یونیورسٹی انتظامیہ کا دفاع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ یونیورسٹی کی تقریب نہیں ہے۔ یونیورسٹی ہال کی بکنگ کوئی بھی اپنی تقریب کے انعقاد کے لیے کر سکتا ہے بشرطیکہ اس سے ادارہ کے پرامن ماحول کو نقصان نہ پہنچے۔‘‘ لیکن یہاں آئیسا اور لیفٹ اسٹوڈنٹ یونین کا سوال ہے کہ آر ایس ایس کو تقریب کے لیے اجازت نامہ دینے والی یونیورسٹی انتظامیہ نے انھیں یونین بجٹ پر تقریب منعقد کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی۔

آئیسا لکھنؤ یونیورسٹی کے سکریٹری شیوم چودھری نے بھی یونیورسٹی انتظامیہ کی دلیل کو خارج کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تقریب یونیورسٹی میں آر ایس ایس کے ایجنڈے کو فروغ دینے اور بھگواکاری کو بڑھانے کے لیے منعقد کی جا رہی ہے۔ شیوم چودھری نے یہ بھی بتایا کہ یہ تقریب یونیورسٹی وائس چانسلر ایس پی سنگھ کی رضامندی سے ہو رہی ہے۔

یونیورسٹی کے ترجمان این کے پانڈے کی اس دلیل کو ’آل انڈیا پروگریسیو وومن ایسو سی ایشن‘ کی سکریٹری کویتا کرشنن نے بھی غلط قرار دیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی ہال کی بکنگ کوئی بھی اپنی تقریب کے لیے کر سکتا ہے۔ کویتا کرشنن کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی نے 2015 میں ’آنر کلنگ‘ (عزت کے لیے قتل) سے متعلق تقریب منعقد کرنے سے منع کر دیا تھا۔ ’’انھوں نے مزید کہا کہ اس تقریب میں 300 اسٹوڈنٹس میری تقریر سننے کے لیے انتظار کر رہے تھے لیکن ہماری بکنگ کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔‘‘ انھوں نے یونیورسٹی انتظامیہ کے ذریعہ آر ایس ایس کی تقریب کو منظوری دیے جانے پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ کیمپس میں اے بی وی پی اور آئیسا کو تقریب کرنے کی اجازت ملنی چاہیے لیکن یہاں تو آر ایس ایس کے لیے دروازہ کھولا جا رہا ہے جس کا یونیورسٹی سے کوئی تعلق نہیں۔

قابل ذکر ہے کہ 24 مارچ کو لکھنؤ یونیورسٹی میں ہندوتوا نظریہ رکھنے والوں کی ہوانے والی یہ تقریب پہلی تقریب نہیں ہے۔ اس سے قبل 28 جنوری کو بھی ’اکھل بھارتیہ سمگر وِچار منچ‘ نے پروگرام کرایا تھا جس میں آئی پی ایس افسر سوریہ کمار شکلا نے کئی لوگوں کے ساتھ مل کرایودھیا میں جلد از جلد رام مندر تعمیر کرنے کا حلف اٹھایا تھا۔ اس حلف برداری کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی کا ماحول خراب ہوا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 Mar 2018, 7:29 PM