فضائی آلودگی: دہلی حکومت کو سپریم کورٹ کی پھٹکار، '6 سال سے باتیں جاری، ہم نتائج چاہتے ہیں'
سپریم کورٹ نے دہلی میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کو لے کر کیجریوال حکومت کی سرزنش کی۔ عدالت نے کہا کہ اب ہم صرف نتائج چاہتے ہیں
نئی دہلی: دہلی میں بڑھتی فضائی آلودگی کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے دہلی حکومت کو پھٹکار لگائی۔ عدالت نے کہا، ’’آپ گزشتہ 6 سال سے مسلسل بات کر رہے ہیں، جب کہ ہمیں مسئلے کا حل چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ ہر سال حکومتیں عدالت کی مداخلت کے بعد ہی کچھ کرتی نظر آتی ہیں۔ ہم 6 سال سے اس مسئلے پر بات کر رہے ہیں لیکن یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آ رہا!‘‘
عدالت نے مزید کہا، آج (10 نومبر) دہلی میں بارش ہوئی ہے، شاید خدا نے لوگوں کی دعائیں سن لیں اور مدد بھیج دی! اس پر حکومت کا شکریہ ادا نہیں کیا جا سکتا۔ پنجاب میں پرالی جلانے کی دلیل سنتے ہوئے عدالت نے کہا کہ دھان کی کاشت کی وجہ سے پنجاب میں زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔ ہم ایک اور صحرا نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہاں دھان کے بجائے کسی اور فصل کے لیے حوصلہ افزائی کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔
طاق و جفت معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ہم نے پوچھا تھا کہ کیا دوسری ریاستوں سے دہلی آنے والی ٹیکسیوں پر کچھ وقت کے لیے پابندی لگ سکتی ہے؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ ٹیکسیوں کے لیے بھی طاق و جفت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ہمارے حکم کی کیا ضرورت ہے؟ آپ اپنا بوجھ عدالت پر ڈالنا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ گاڑیوں سے ہونے والی آلودگی 17 فیصد ہے۔ آپ کی منصوبہ بندی اس پر بہت کم اثر رکھتی ہے۔ اگر آپ یہ کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں، تاکہ کل یہ نہ کہا جائے کہ سپریم کورٹ کے حکم سے آلودگی کم نہیں ہو رہی۔ سچ یہ ہے کہ لوگ خدا پر بھروسہ کرتے ہیں۔ کبھی ہوا کا جھونکا ان کی مدد کرتا ہے، کبھی بارش مدد کرتی ہے لیکن حکومت کچھ نہیں کرتی!
سپریم کورٹ نے دہلی حکومت سے پوچھا کہ ہمیں بتائیں کہ پرالی جلانے کے لیے ہم کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں؟ پرالی جلانے کو روکنا بہت ضروری ہے، اس سمت میں کام ہونا چاہیے۔ بہتر ہو گا کہ فصل کاٹنے کے طریقہ کار میں تبدیلی کی جائے یا پرالی کو مشینوں کے ذریعے ٹھکانے لگایا جائے لیکن مشینیں دستیاب ہونے کے باوجود ان کا استعمال نہیں ہو رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔